کرونا کا رونا اور کرپٹ طبقے کی کرپشن بام عروج پہ

”کرونا سے نہیں بلکہ جہالت سے مارے جائیں گے “ مجھے افسوس اس بات کا نہیں کہ کرونا آگیا ہے مجھے غم اس بات کا ہے کہ ہماری عوام عالمی جان لیوا خطرناک وباء کو مذاق سمجھ رہے ہیں کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کر رہے ہیں

بدھ 25 مارچ 2020

corona ka roan aur corrupt tabqay ke corruption baam urooj pay
تحریر : عبدالہادی قریشی 

کرونا وائرس جب سے پھیلا ہے عوام اس کو مذاق سمجھ رہے ہیں اور کوئی بھی شخص اس کو سنجیدہ نہیں لے رہا ہے سوشل میڈیا پر حلقہ ادب سے منسلک اور پڑھے لکھے لوگوں کا کہنا ہے کے ہم
”کرونا سے نہیں بلکہ جہالت سے مارے جائیں گے “ مجھے افسوس اس بات کا نہیں کے کرونا آگیا ہے مجھے غم اس بات کا ہے کے ہماری عوام عالمی جان لیوا خطرناک وباء کو مذاق سمجھ رہے ہیں کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کر رہے ہیں وہ لوگ بلاشبہ بچ جائیں گے جو لوگوں سے ہاتھ اور گلے نہیں ملا رہے اپنے ہاتھوں کو صابن اور سینیٹائرز سے ہر 20منٹ بعد دھو رہے ہیں چہرے کو ماسک سے ڈھانپ کے رکھا ہے اور ہاتھوں میں ربڑ کے دستانے پہنے ہوئے ہیں مگر اُن کا کیا حل کیا جائے جو احتیاطی تدابیر کو حکومتی اور ڈاکٹری لطیفے سمجھ کر ہوا میں تحلیل کرنے میں مصروف ہیں ساری باتیں اپنی جگہ میں ایک اور بات سوچ رہا تھا کے چین نے ترقی کی پاکستان میں ہم زیادہ تر چین کی سستی اور معیاری چیزیں استعمال کرتے ہیں مگر چین نے کرونا وائرس جیسی عالمی اور جان لیوا وباء پر قابو پا لیا ہے چین کے عوام پڑھے لکھے اور سمجھ دار ہیں وہ کرونا کی خطرناکیوں کو جانتے و سمجھتے ہیں چینی عوام کو معلوم تھا کے ہم نے حکومتی احکامات کو ماننا ہے اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہے ہمارے ملک میں میرے علم و یقین کے مطابق ایسے ادارے ، دفاتر اور کالجز ہیں جو ابھی تک کھلے ہیں جو دفاتر وغیرہ اب تک کھلے ہیں اُن کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے نا جانے انسان کیوں اتنا لالچی ہے پتہ بھی ہے لوگوں کو کے وائرس موت کا فرشتہ بن کے آچکا ہے ۔

(جاری ہے)

احتیاط کر لی جائے جو کے سنت نبی ﷺ ہے مگر نہیں یہاں ہمارے ملک میں لوگوں کو پیسہ کمانا زیادہ عزیز ہے ہو سکتا ہے جو لوگ اپنے اداروں کو کھلے ہوئے ہیں وہ کمایا گیا پیسہ قبر میں لے کر جائیں ہمارے ملک میں ایک بڑا مسئلہ افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ نظریاتی اختلافات رکھنا بھی ہے لوگ کہتے ہیں جو ہم کہہ رہا ہوں وہ بالکل صحیح ہے بالکل حکومت کی بات کو یا کسی دوسرے کی اچھی نصیحت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے علمائے کرام کا یہ اب اولین فرض بن گیا ہے بیشک علمائے کرام ، پیران عظام ، مشائخ اور مولانا حضرات کو چاہے اُن کی وابستگیاں جس مرضی مسلک کے ساتھ ہیں وہ اپنے مُریدین اور اپنی مسجد کے نمازیوں کو کہیں کے اگر آپ کو بخار ، خشک کھانسی اور سانس لینے میں دشواری ہے تو گھر پر نماز پڑھیں اور اپنا کرونا وائرس کا ٹیسٹ کروائیں پاکستان میں ایک بڑا طبقہ مذہبی ہے اگر مذہبی لوگوں کی جانب سے یہ پیغام جائے کے کرونا کے احتیاطی تدابیر کو اختیار کیا جائے تو مجھے لگتا ہے گاوٴں دیہات کے لوگوں کو شعور آجائے گاوٴں دیہات اور بہت ہی زیادہ پسماندہ علاقوں کے لوگ پیروں فقیروں کے پیچھے چلتے ہیں ہو سکتا ہے اپنے مرشدوں کے کہنے پر مریدین کرونا وائرس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا شروع کر دیں۔

 اس وقت کے حالات یہ بن چکے ہیں کے یومیہ اجرت کمانے والے بے روزگار ہو گئے ہیں مزدوروں کے ساتھ کوئی مزدوری نہیں آتی وہ لوگ جو بچوں اور دفاتر کے اسٹاف کو چھوڑنے اور لینے یعنی پک اینڈ ڈراپ کا کام اپنی گاڑیوں پر کرتے تھے وہ ڈرائیورز حضرات بے روزگاری کا شکار ہو گئے ہیں حالات خراب سے خراب ہوتے جا رہے ہیں میں چونکہ اسلام آباد کے دیہی علاقے جھنگ سیّداں ارسلان ٹاوٴن اسلام آباد میں رہتا ہوں یہاں لوگوں نے بہت احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں مگر اسی لہتراڑ روڈ اسلام آباد پرکالجز اور دانتوں کے کلینکس اور ہسپتال کھلے ہوئے ہیں جو کہ میرے نظریات کے مطابق سراسر غلط ہے حکومت پاکستان کو میں خراج تحسین اور صمیم قلب سے سلام عقیدت پیش کرتا ہوں جو کرونا وائرس کے خاتمے میں اپنا عملی کردار ادا کر رہی ہے ڈپٹی کمیشنر اسلام آباد جناب حمزہ شفقات صاحب اپنی ذاتی بہترین اور قابل تعریف خدمات پیش کر رہے ہیں اُن کے نوٹیفکیشن پرعمل در آمد ہو رہا ہے مگرپھر بھی جو ادارے کھلے ہیں اُن کو جرمانے کیئے جائیں اُن لوگوں کو حوالات میں بند کیا جائے کے اُنھوں نے اداروں کو کیوں کھولا ہوا ہے ۔

جہاں اسکولوں اور کالجوں کی بات ہے وہاں طلباء و طالبات کو گھر بھیج دیا گیا ہے مگر اسٹاف کو بُلایا جا رہا ہے اور وہاں لوگ اکٹھا ہوتے ہیں ایک دوسرے سے ہاتھ اور گلے ملتے ہیں جس کی وجہ سے خطرناکیاں کرونا وائرس کی بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔
 اللہ پاک ہماری قوم کو عقل عطاء فرمائے یہ انسان ہوکر انسانیت کا سوچیں اور خود بھی احتیاطی تدابیر کرے اور دوسروں کو بھی عمل کروائے مگر گاوٴں دیہات میں لوگ نظر نہیں آتے احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے اگر میں کسی سے سوال کروں کہ آپ کیوں نہیں فیس ماسک پہنتے؟؟ لوگوں سے کیوں گلے ملتے اور ہاتھ ملاتے ہیں اُن کا ایک ہی جاہلانہ جواب ہوتا ہے کہ موت برحق ہے جو آکے رہنی ہے موت کی اٹل حقیقت سے کوئی انکار نہیں۔

میرے نظریات کے مطابق موت نے آنا ہے مگر احتیاط کرنے کا درس دین اسلام اور شریعت محمد ی ﷺ میں واضح ملتا ہے اور جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ احتیاطی تدابیر سے کچھ نہیں ہوتا سب بکواس ہوتا ہے یا موت برحق ہے جس نے آکے رہنا ہے یقین جانیئے وہ لوگ نہ صرف لوگ مریں گے بلکہ خود تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے محاوے کے تحت دوسرے لوگوں کا بھی کرونا وائرس سے قتل کریں گے ۔

اللہ پاک جاہلوں کے سروں سے جہالت کی زنجیریں توڑے انھیں شعور دے کے وہ بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کر سکیں ۔ 
میں کرونا وائرس پر کہنا چاہوں گا کے کرونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں پر عذاب ہے ہمارے ملک پاکستان میں ابھی بھی پاکستانی اس کو مذاق سمجھ رہے ہیں فیس بک ، ٹیوٹر اور واٹس ایپ اسٹیٹس پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے والوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے نبی ﷺ جو تاجدار مدینہ ﷺ خاتم النبین علیھم السلام ہیں اُنھوں نے بھی بیماریوں سے حفاظت پر زور دیا ہے میں بطور صحافی مختلف واٹس ایپ گروپس میں ایڈ ہوں ایک واٹس ایپ گروپ میں کسی نے مشہور کالم نگار و سینیئر صحافی جاوید چوہدری صاحب کی ویڈیو شیئر کی جس میں اُنھوں نے کہا ہے ایران کے دو لوگ ایک مرد اور ایک عورت صرف اس وجہ سے صحت یاب ہوئے کرونا وائرس سے کہ اُنھوں نے ہسپتال کے بستر پر خود سے یہ عزم و ارادہ کر لیا تھا کے میں نے کرونا کو شکست دینی ہے ہم نے کرونا سے مرنا نہیں ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس وبائی جان لیوا مرض سے شفاء دینے والا ہے میرے ذاتی نظریات کے مطابق کرونا وائرس صرف دو دن سے بھی کم وقت میں ختم ہو سکتا ہے اگرشعور اور آگاہی کے ساتھ لوگ حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کریں احتیاطی تدابیر اختیار کریں ذاتی مراسم ، روابط اور میل جول کو منقطع کر دیں اور اللہ تعالیٰ کی لاریب بے مثل و بے مثال کتاب قرآن پاک کی تلاوت کریں وضو میں رہیں پانچ وقت کی نمازیں ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے بیماری کی شفاء میں دُعا کریں مگر میں اپنے آس پاس معاشرے میں دیکھ رہا ہوں کے لوگ فضول قسم کی باتیں کرنے میں مگن ہیں اُنھیں کرونا کا کوئی ڈر نہیں کوئی کہہ رہا ہے میں صحت مند بندہ ہوں اور مجھے کرونا نہیں ہو سکتا کوئی کہہ رہا ہے ڈینگی آیا آدھے آستین کے کپڑے پورے کروائے اور کرونا آیا تو نقاب سب کو کروا دیا کوئی کہتا ہے بے حیائی کا عذاب ہے۔

 میرے نظریات کے مطابق لوگوں کی منطقوں کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے کیوں کے وائرس پاکستان میں پھیل چکا ہے بہارہ کہو میں 12 تبلیغی جماعت کے لوگوں کو وائرس کی تشخیص ہوئی بتاتا چلوں کے بہارہ کہو اسلام آباد کے مصروف علاقوں میں سے ایک دیہی علاقہ شمار کیا جاتا ہے بے شک میں علمائے کرام کی تعظیم کرتا ہوں علمائے کرام کو بھی چاہیئے چاہے وہ جس مسلک کے بھی ہوں کے لوگوں کو آگاہی دیں کہ وہ کرونا کے نپٹنے کے لیئے احتیاطی تدابیر پر عمل کریں کیوں کہ ہماری قوم کو اُس وقت عقل آتی ہے جب پانی سرسے گزر چکا ہوتا ہے یہ وقت ہے توبہ استغفار کرنے کا اللہ سے اور لوگوں سے اپنے گناہوں کی معافی کا جس انسان سے کسی مظلوم پر ظلم کیا ہے کسی کا حق کھایا ہے اُسے چاہیئے کہ وہ فوراََ اُس مسکین ولا چار کے پاس پہنچ کر معافی طلب کرے ۔

میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار اتنی خطرناک جان لیوا وبا کے حالات سنگین سے سنگین ہوتے دیکھے ہیں جب مارکیٹس بند ، اسکول بند ، کالجز بند ،یونیورسٹیاں بند ہیں میری نگاہ میں وہ تمام لوگ قابل تعظیم و تکریم ہیں جو کرونا وائرس کے خاتمے کے لیئے اپنی ذاتی خدمات پیش کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پاکستان پر اپنا خاص رحم و کرم فرمائے 23مارچ خاموشی سے گزر گیا مگر اس سے پہلے کبھی یوم قرار داد پاکستان پر سناٹا اور ویرانی نہیں تھی۔

اللہ پاک کرونا کے مریضوں کو جلد از جلد شفائے کاملہ عطاء فرمائے اور جو مسلمان کرونا سے دنیائے فانی سے کوچ فرما گئے ہیں اللہ تعالیٰ اُنھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ اور بہت بلند مقام عطاء فرمائے آمین 
جیک ما اور علی بابا جو کے امیر اشخاص ہیں غیر ملکی وہ اپنے لوگوں کے لیئے مالی امداد کر رہے ہیں ہمارے ملک میں بھی صاحب ثروت لوگوں کو چاہیئے کے وہ یومیہ اجرت کمانے والوں کی امداد کریں ۔

اب ایک اہم مسئلہ وہ یہ ہے کے کرونا وائرس کی وجہ سے دُکا ن داروں نے مہنگائی کرنا شروع کر دی ہے محترم عمران خان صاحب نے تمام اقدام قابل تحسین ہیں مگر حکومت پاکستان کا فرض بنتا ہے کے وہ خود ساختہ مہنگائی کرنے والے دُکان داروں کو بھی احتسابی کٹھرے میں لائے اور اُن سے سوال و جواب کرے اُن پر جرمانے کرے وہ دُکان دار جس کی دُکان کا نام المکہ جنرل اسٹور ، المکہ کریانہ اسٹور ، المدینہ جنرل اسٹور ، المدینہ راشن سینٹر ، المدینہ کریانہ اسٹور یا بسم اللہ جنرل اسٹور یا کریانہ اسٹور ہو وہ میرے نظریات کے مطابق آٹا ، دالیں اور چاول سمیت دیگر کھانے پینے کی چیزوں کو مہنگا کرکے حج و عمرہ کے لیئے پیسے اکٹھا کریں گے اور پھر مہنگی مہنگی شاندار بڑی محافل کروائیں گے جس میں نعت پڑھی جائے گی ” آوٴ مدینے چلیں آوٴ مدینے چلیں “ کیا مہنگائی کے پیسوں سے عوام کے خون پسینے کی حلال روزی کو ناجائز طریقے سے صرف منافع خوری کے لیئے لوٹنا کیا جائز ہے اہل علم و شعور جواب دیں گے ہرگز جائز نہیں ۔

 میرے نظریات کے مطابق علمائے کرام اور مذہب کے پیچھے یا یوں سمجھ لیجیئے مذہبی نظریات و عقائد دوسروں کے مان کر اُن کے پیچھے چلنے والے افراد بھی کرونا کو انٹرمیڈیٹ میں پڑھائی جانے والی مسٹر چپس کی کہانی سمجھ رہے ہیں اور کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کر رہے ہیں ۔ میں جب بھی باہر انتہائی ضروری کام سے کوئی سودا لینے یا ڈاکٹر کے پاس کلینک کو جاتا ہوں اپنا یا گھر والوں کا علاج معالجہ کروانے تو راستے میں داڑھی مبارک والے ایسے متعدد افراد نظر آتے ہیں جنھوں نے فیس ماسک بالکل نہیں پہنا ہوتا میں نعو ذباللہ داڑھی والوں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہا ہوں بلکہ اپنا صرف ایک نظریہ دے رہا ہوں کے زیادہ تر گاوٴں دیہات کے لوگ اور مذہبی افراد کرونا وائرس کو کھیل تماشہ سمجھ رہے ہیں اللہ پاک ہمارے حالوں پر رحم و کرم فرمائے آمین۔

 گاوٴں دیہات کے لوگوں کا بڑا اہم مسئلہ یہ ہے کے وہ سمجھتے ہیں کے ہم گندم اور مکئی کی روٹی کھاتے ہیں ہم صحت مند اور تندرست و توانا ہیں لہٰذا ہمیں کچھ نہیں ہو سکتا کوئی بیماری ہمارے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی یاد رکھیئے بیماری امیری یا غریبی نہیں دیکھتی بیماری یا جان لیوا وباء کوئی سی بھی ہویا موت یہ نہیں جانتی و سمجھتی سامنے بادشاہ ہے یا وزیر ، کالم نگار ہے یا صحافی ، امیر ہے یا غریب ، ڈہابے کی چائے پینے والا مزدور یا عام بندہ ہے یا پھر پرل کونٹینٹل ، سینرینا یا کسی 5اسٹار ہوٹل کی چائے سے لطف اندوز ہونے والا صاحب ثروت انسان ہے ۔

وباء اور موت ہر کسی کو لگ سکتی ہے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ انسان نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے انسان نے چاند تک تسخیر حاصل کر لی ہے انسان سورج چاند ستاروں زمین پہاڑوں یہاں تک کے سمندر سمندر کے اندر کے حالات اور چاندکے اندر کے حالات تک رسائی حاصل کرکے تحقیقی علم لوگوں تک پہنچا چکا ہے تحقیق اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ انسان نے دنیا کو انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ سے متعلقہ تمام مشنینوں کے ذریعے جسے کمپیوٹر لیپ ٹاپ ٹیبلٹ موبائل کہا جاتا ہے ان سب کے ذریعے گوبل وولیج بنا لیا ہے مگر اب تک انسان ایک وباء جو عالمی نوعیت کی ہے جس نے اب تک کی انٹرنیشنل رپورٹس کے مطابق 1039افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے جس وباء نے اسکول ، کالجز ، یونیورسٹیاں ، مداراس اور نظام زندگی درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے کرونا وائرس نے 185ممالک کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے اب تک اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا معلوم ہوا انسان کا علم صرف دنیا کی حد تک ہے انسانی علم کی کوئی اہمیت نہیں انسانی علم کی کوئی طاقت نہیں انسان جہاں مرضی تک رسائی حاصل کرلے مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ثابت کر دیا ہے میں ہوں جو بھی انسان اللہ تعالیٰ کی حقانیت سے منہ موڑتا تھا اللہ نے بتا دیا کے نظام کائینات چلانے والا میں اللہ ہی ہوں میرے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس وباء سے بھی نجات دلا سکے ۔

ایک بات ماننی پڑھے گی۔
ایک سال سے زائد عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا تھا کسی پاکستانی نے اُس مقبوضہ کشمیر کے کرفیو کو محسوس نہیں کیا مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز میں روزانہ خبریں موصول ہوتی تھیں مگر لگتا ہے مقبوضہ کشمیر یا کسی مظلوم ملک سے کسی ماں نے فریاد نے عرش کو ہلا کے رکھ دیا ہے ۔ میرے علاقے میں کل اذانیں ہونے کا سلسلہ شروع ہوا اس سے پہلے رات کے 10بجے بغیر کسی نماز کے اذان میں نے نہیں سنی تھی مگر کل جب میں نے خوداپنے گھر کی چھت پر اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت ﷺ کی گواہی دی اذان میں تو میری روح کانپ اُٹھی کیوں نے منظر عجیب سا لگ رہا تھا ہر چیز بند ہے ہمارے ملک میں غریب رو رہے ہیں لوگ اپنے روزگار سے بے روزگار ہو چکے ہیں میرے اذان دینے کے بعد میرے والد صاحب نے اذان دی میں کہنا چاہوں گا اُن لوگوں سے جنھوں نے بے گناہوں اور بے قصوروں پر ظلم کیا ہے۔

میں کہنا چاہوں کا اُن رشورت کے پوجاریوں سے جنھوں نے غریبوں اور بے سہارا لوگوں سے اُن کی مجبوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے رشوت لی میں کہنا چاہوں گا اُن زانیوں سے جنھوں نے معصوم بچے و بچیوں سے زنا جیسا گھٹیا فعل سر انجام دیا میں کہنا چاہوں گا شرابیوں سے جنھوں نے دن رات شراب پی میں کہنا چاہوں گا اقتدار ، عہدوں ، پیسے اور دنیاوی دولت کے نشے میں مست لوگوں سے جنھوں نے اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اُٹھایا اور غریبوں کی دل سے بد عائیں لی خدا کا واسطہ سدھر جائیں اگر کسی رشورت خور نے کسی غریب انسان سے اُس کے جائز کام کے ہونے کے لیئے رشورت لی زبان سے کہا کے مجھے رشوت دو وہ رشورت خور فوری توبہ کرے اور رشورت کے تمام پیسے متعلقہ بندے کو واپس کرے یقین جانیئے۔

 ہم پاکستانی عوام سمیت پوری دنیا میں مسلمان عذاب خداوند ی میں بُری طرح پھنس چکے ہیں ایسا کبھی نہیں ہواہے عمرے کو رکوا دیا جائے میں آخر میں یہی کہنا چاہوں گاکے یہ انسانوں کے اعمال کی سزا اللہ تعالیٰ دے رہا ہے انسانوں کو چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے روئیں گڑگڑائیں اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ہر روز رات کو 10بجے اپنے گھروں کی چھتوں پر اذانیں دیں دُکان داروں کو چاہیئے کے وہ مناسب و جائز منافع رکھیں میڈیکل اسٹور والے 300والا ایک فیس ماسک کا ڈبہ 1500میں فروخت کرکے کون سے محلات بنا لیں گے مجھے اس بات کا جواب دیں ؟؟ غریب عوام مر رہی ہے اور دوسری جانب کرپٹ طبقہ کرپشن کرنے سے بالکل باز نہیں آ رہا ہے اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنا پڑے اس کے لیئے نظریاتی طبقہ الٹی سیدھی اپنی منطقیں ، دلائل و نظریات پیش کر رہا ہے دُکان دار منافع خور میں لگیں ہیں حرام کی کمائی سے محافل کرنا بھی قبول نہیں ہوتا عمرہ بھی اگر ہو جائے حرام کی کمائی سے تو انسان پھر بھی پارسا نہیں بن سکتا اُس کے اعمال قبر میں ساتھ ساتھ جاتے ہیں اللہ پاک ہمارے حالوں پر اپنا رحم و کرم فرمائے اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

corona ka roan aur corrupt tabqay ke corruption baam urooj pay is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 March 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.