سقوط ڈھاکہ اور پاکستان کیخلاف بھارت کے مذموم ہتھکنڈے

مودی نے ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر پاکستان کو دولخت کرنے کا اعتراف کیا تھا

پیر 14 دسمبر 2020

Saqoot e Dhaka Or Pakistan K Khilaf India K Mazmoom Hathkandey
رابعہ عظمت
سقوط ڈھاکہ،بھارت کی پاکستان دشمنی کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔آج بھی وطن عزیز کے خلاف بھارت کی سازشیں جاری ہیں۔ چالاک و مکار،مودی سرکار جس سے خواب میں بھی پاکستان کی سلامتی نہیں دیکھی جاتی۔پاکستان کے عدم استحکام کی خواہش کا یہ سلسلہ تھما نہیں آج بھی زہر افشانی جاری ہے۔بھارتی فوجوں نے مشرقی پاکستان پہ قبضہ کرکے بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کیا تو تب اندرا گاندھی نے قوم سے خطاب میں دعویٰ کیا کہ آج ہم نے پاکستان کے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔

یوں بھارت نے پاکستان کو توڑنے کے اپنے گھناوٴنے منصوبے میں پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل۔مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کرنے کے بعد دشمن کے نشانے پر بلوچستان ہے ۔اگر سقوط ڈھاکہ میں بھارت کی شمولیت پہ کوئی شک وشبہ تھا وہ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جون 2015ء میں اپنے دورہ بنگلہ دیش میں بنگلہ دیشی پارلیمان سے خطاب کے دوران اس اقرار نے دور کر دیا کہ 1971ء میں وہ بنگالی حریت پسندوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑے تھے۔

(جاری ہے)

پاکستان کے ٹکڑے بخئے کرنے کی سازش کی تکمیل میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 15 اگست 2016ء کو بھارتی یوم آزادی کے موقع پہ تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان کو پاکستان کے چنگل سے آزاد کرکے دم لیں گے۔
 انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ وہ آزاد جموں و کشمیر،گلگت اور بلتستان کو بھی پاکستانی تسلط سے آزاد کرا کے دم لیں گے۔

بھارتی مداخلت کا واضح ثبوت بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری ہے جس نے خود بلوچستان میں دہشت گردی کا اعتراف کیا کس طرح بلوچ نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کیلئے انہیں اسلحہ سمیت رقوم بھی فراہم کی جاتی رہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بھارت ایک عرصے سے بلوچستان میں حالات خراب کر رہا ہے،جبکہ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد بھارت حواس باختہ ہو چکا ہے۔

بلوچستان میں دہشت گردی کی یکے بعد دیگرے وارداتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بیرونی دشمنوں بالخصوص ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پاک فوج کی توجہ کشمیر ایشو سے ہٹانے کے لئے صوبہ بلوچستان کو تخریبی کارروائیوں کا ہدف بنا رکھا ہے۔صوبے میں سکیورٹی فورسز پر مسلسل حملے بھی اس مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔بلوچستان جغرافیائی لحاظ سے چونکہ انتہائی اہم نوعیت کا حامل ہے لہٰذا امریکی سی آئی اے،را اور موساد کا مشترکہ پلان طویل عرصہ سے اس علاقے کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہے۔


افغانستان کے ذریعے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کا سر گرم عمل منظم نیٹ ورک صوبے میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث عناصر کو بھارتی اسلحہ اور سرمایہ کی فراہمی کے علاوہ بلوچستان کے علیحدگی پسند بلوچ نوجوانوں کو تربیت بھی دیتا رہا ہے جو ملک کی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث ہیں۔دراصل بلوچستان میں علیحدگی کی آگ باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت گزشتہ 73 سالوں سے سلگائی جا رہی ہے۔

نواب آف قلات کا مقدمہ ابھی تک اقوام متحدہ میں ہے جن کا موقف ہے کہ اس نے کبھی پاکستان سے الحاق ہی نہیں کیا بلکہ زبردستی ہماری آزادی کو چھین کر ہمیں محکومی پر مجبور کیا گیا۔اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ ”آزاد بلوچستان“ کی چنگاری کو بھڑکائے رکھنے میں نہ صرف بیرونی بلکہ اپنے لوگوں کا ہاتھ ہے۔یورپ، امریکہ میں پاکستان دشمن پروپیگنڈے پر مبنی زہر آلود لٹریچر کی تقسیم،فری بلوچستان موومنٹ کے زیر اہتمام ریلیاں،مظاہرے اور پلے کارڈز و پوسٹرز کی تقسیم جن پر بلوچستان پر پاکستانی مظالم اور نام نہاد پاکستان چین اکنامک کو ریڈور کے خلاف نعرے درج تھے۔

آخر ”آزاد بلوچستان“ مہم کس نے شروع کروائی اور کس کی ایماء پر پاکستان کی سالمیت کے خلاف محاذ تیار کئے جا رہے ہیں ، یقینا مقامی مدد و تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا،اس وقت بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے نصف سے زائد ارکان بلوچستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کرنے کی سازشوں میں براہ راست ملوث ہیں اور اگر انہیں ملک دشمن ایجنٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

باقاعدہ طور پر آزادی بلوچستان موومنٹ میں تیزی لانے کے لئے فنڈنگ و سپورٹ فراہم کی جا رہی ہے۔بھارت میں ”را“ کے تحت چلنے والے 3 چینلز 24 گھنٹے بلوچستان کیخلاف پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں۔بھارت یو این او کی سلامتی کونسل میں آزاد بلوچستان کے حق میں قرار داد لانے کی تیاریوں میں ہے۔ پاک فوج اور ایف سی صوبے میں امن وامان کے قیام اور استحکام اور سی پیک سمیت ترقی کے منصوبوں کی تکمیل اور ان کی حفاظت کیلئے کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔


مودی نے ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر پاکستان کو دولخت کرنے کا اعتراف کیا تھا
مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان 1400 کلو میٹر بھارتی سر زمین حائل تھی جس کے انتظامی مسائل تو اپنی جگہ تھے لیکن 1971ء میں اس فاصلے نے بھارت کی پاکستان کو دولخت کر دینے کی گھناوٴنی سازش کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔تاریخ شاہد ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہندوستانی شمولیت کا آغاز 1971ء سے بہت پہلے قتل،عصمت دری اور تشدد کے ساتھ ہوا۔

بھارتی خفیہ ایجنسی راء تشکیل دی گئی تو اس کا ولین مقصد مشرقی پاکستان میں شورش بپا کرکے اسے پاکستان سے علیحدہ کرنا تھا۔راء کے اہلکاروں نے بنگالیوں کو بغاوت پہ اکسانا شروع کیا۔پہلے تو بنگالیوں کو یہ باور کرایا گیا کہ مغربی پاکستانی بنگالیوں سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں دوسرے یہ کہ مغربی پاکستانی دانستہ طور پر بنگالیوں کو پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ رکھنا چاہتے،نفرت اور عداوت کی چنگاریاں جب بھڑکنے لگیں تو راء نے بنگالیوں پر مشتمل ایک گوریلا تنظیم”مکتی باہینی“ تنظیم دی۔

اس میں راء کے اہلکار شامل تھے اور بنگالیوں کو تخریب کاری اور گوریلا جنگ کی تربیت دی گئی۔بھارتی فوج نے جس طرح سے بھارت اور مشرقی پاکستان میں قائم تربیت گاہوں میں مکتی باہنیوں کی تربیت کی اور پاک فوج کی وردیوں میں ملبوس بھارتی فوجی جس طرح سے ذلت آمیز کارروائیاں کرکے مشرقی پاکستان کے عوام کو پاک فوج کے خلاف ابھارنے میں مگن رہے اس کی مثال نہیں ملتی۔


1971ء میں مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو بھارت نے نہ صرف یہ کہ وہاں قبیح پروپیگنڈہ جاری رکھا بلکہ باقاعدہ فوج کشی کرکے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔تاریخ گواہ ہے کہ 16 دسمبر کو صرف مغربی پاکستان ہی میں نہیں مشرقی پاکستان میں بھی بہت سے محب وطن خاندان دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔

1971ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے آخری پاکستانی وائس چانسلر ڈاکٹر سجاد حسین کی کتاب ا ”شکست آرزو“ کے نام سے شائع ہوئی،بہت واضح انداز میں ان سازشوں اور توضیحات کا احاطہ کرتی ہے،جن کی بدولت مشرقی پاکستان کو الگ کرنے میں بھارت نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا اور ایسا وار کیا،جس کے زخم آج بھی مندمل نہیں ہوئے۔”شکست آرزو“ کا صفحہ 328 کا درج ذیل اقتباس ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے،جو سنی سنائی داستانوں پر یقین کرتے ہوئے اپنے ہی ملک اور اداروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں جبکہ حقائق کچھ اور تھے:”بنگلہ دیش کی جو نئی نسل اسکولوں کالجوں اور جامعات میں پڑھ رہی ہے اُن کے ذہن میں یہ بات انڈیلی جا چکی ہے کہ پاکستان ایک بھیانک خواب تھا،جن لوگوں نے آخری دم تک پاکستان کا ساتھ دیا اور 1972ء سے 1975 ء کے دوران شیخ مجیب کے بے رحمانہ کریک ڈاؤن سے کسی نہ کسی طور بچ گئے،اُنہیں معاشرے میں اچھوت کا سا درجہ دے دیاگیا،جس پر وطن کے معاملات میں بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

میجر جلیل نے 1971ء میں عوامی لیگ کا ساتھ دیا،مگر جب اُس نے دیکھا کہ پاکستان کا تقریباً تمام فوجی سازو سامان ٹرکوں میں لاد کر بھارت بھیج دیا گیا ہے،تو اُس نے صدائے احتجاج بلند کی،مگر ایسا کرنا اُس کا جرم ہو گیا۔بھارتی سازش بے نقاب کرنے کی پاداش میں اُسے غدار قرار دیا گیا۔آزادی کے حقیقی سپاہیوں کی فہرست سے میجر جلیل کا نام خارج کر دیا گیا“۔


”شکست آرزو“ میں دیئے گئے حقائق سے بخوبی آگاہی ہوتی ہے کہ کس طرح سے بھارتی عناصر کو شیخ مجیب اینڈ پارٹی پر غلبہ حاصل تھا۔ پاکستان کے خلاف ایک ہرزہ سرائی یہ بھی کی جاتی ہے کہ 9 ماہ جاری رہنے والے کریک ڈاؤن میں پاکستانی فوج نے 30 لاکھ افراد کو موت کے گھات اُتارا۔یہ الزام کتنا مضحکہ خیز ہے ‘اس کا اندازہ کتاب کے صفحہ نمبر 333 پر د یئے گئی ان سطروں سے ہوتاہے۔

ڈھاکہ سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار‘مارننگ سن‘کے ایڈیٹر نورالاسلام جو پاکستان کے حمایتی نہیں تھے،مگر انہیں بھی کہنا پڑا کہ ”3 ماہ میں 30 لاکھ افراد کی ہلاکت کو یقینی بنانے کے لئے روزانہ گیارہ ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اُتارنا پڑے گا۔“اس صفحے پر آگے چل کر ڈاکٹر سجاد حسین لکھتے ہیں”بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن کے دور میں اس نوعیت کا ایک سروے کیا گیا تھا،مگر ابتدائی نتائج ”حوصلہ افزاء“ برآ مد نہ ہونے کی وجہ سے یہ سروے ترک کر دیا گیا۔

’“گویا 30 افراد کی ہلاکت کے الزام کو شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کا حکمران بن کر بھی ثابت نہیں کر سکا۔
مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش میں قتل و غارت اور نسل کشی کا سارا الزام بنگلہ دیش اور ہندوستان کے سرکاری کھاتوں نے پاکستان پر ڈال دیا تھا اور بھارت نے 1971ء سے متعلق تمام ریکارڈ کو ختم کر دیا ہے۔بدقسمت مسلمانوں کے ہزاروں خاندان،جن میں سے بیشتر مہاجرین جنہوں نے 1947ء میں پاکستان میں بسر ہونے کا فیصلہ کیا تھا،بے رحمی کے ساتھ صفایا کر دیا گیا تھا۔

خواتین کی عصمت دری کی گئی ۔مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسران اور ان کے کنبوں کا ہلاک کیا گیا۔زیادہ تر خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ بار بار عصمت دری کی گئی اور انھیں مارا گیا۔ایک رپورٹ کے مطابق‘جب جہاز چٹا گانگ کے قریب پہنچا تو وہاں لاشیں تیر رہی تھیں۔بندرگاہ نے قریب،برہما پترا کے کیچڑ اور جزوی طور پر خون آلود پانی سے لاشیں بڑھ گئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Saqoot e Dhaka Or Pakistan K Khilaf India K Mazmoom Hathkandey is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.