سوا دو ارب روپے کا جعلی اکاﺅنٹ‘ اصل کی تلاش

ادھر پیپلز پارٹی کو خدشہ ہے کہ ارب پتی فالودے والے کے کیس میں پیپلز پارٹی کو ملوث نہ کردیا جائے جعلی بنک اکاﺅنٹ کا یہ کیس بھی منی لانڈرنگ اسکینڈل کی طرح 2014کا ہے۔ صوبائی وزیر سعید غنی نے تو لگی لپٹی کے بغیر صاف صاف کہہ دیا کہ فالودے والے کے کیس کا رخ پیپلز پارٹی کی جانب موڑا جارہا ہے۔

جمعہ 19 اکتوبر 2018

sawa do arab rupay ka jaali account asal ki talaash
شہزاد چغتائی
سندھ اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں ارکان میزانیہ برائے 2019ء2018 پر بحث کے دوران سیاسی اورلسانی مناظرہ میں الجھ گئے جس کے بعد بجٹ پس منظر میں چلا گیا اور دور وز تک لسانیت پر دھواں دھار تقاریر ہوتی رہیں۔ جس کے نتیجہ میں اسمبلی کے اندر باہر فضا مسموم ہوگئی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان گلے پھاڑ کر دھاڑتے رہے پھر جب ان کو غلطی کا احساس ہوا تو معافی کا دور چلا اور دونوں فریق معذرت کرتے رہے۔

اس دوران ارکان اسمبلی بحث میں الجھ گئے کہ ان کا صوبہ ہندوستان سے آنے والوں اورسندھ کے عوام کو پال رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی محمد حسین نے بجٹ تقریر میں جب یہ کہا کہ کراچی سندھ کو 95فیصد ریونیو دیتا ہے جس پر صوبائی وزیر سہیل انور سیال ہتھے سے اکھڑ گئے انہوں نے کہا کہ ہندوستان سے آنے والوں کو ہم پال رہے ہیں سہیل انور کے اس بیان پر آگ لگ گئی اورنیا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔

(جاری ہے)

دوسرے دن انور سیال اپنے بیان میں ڈٹے رہے۔ لیکن بلاول بھٹو نے اس فضول بحث کا نوٹس لے لیا اور انورسیال کو بیان سے منحرف ہونا پڑا جس کے ساتھ صورتحال معمول پر آگئی۔لسانیت کا پہلا پتھر صوبائی وزیر سہیل انور سیال نے پھینکا تھا وہ دھیمے مزج کی شخصیت ہیں۔ لیکن پتہ نہیں ان کوکیا ہو گیا کہ وہ جذباتی ہوگئے۔ سہیل انور سیال کاشمار پیپلز پارٹی کے انتہا پسندوں میں نہیں ہوتا لیکن انہوں نے بہت سخت تقریر کردی جوکہ کراچی کی جماعتوں سے ہضم نہیں ہوئی۔

لیکن پھر سندھ اسمبلی میں سب ٹھیک ہوگیا۔پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے معافی مانگ لی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میں خود مہاجر ہوں۔ سندھ نے بازو پھیلائے تو ہم سندھی ہوگئے۔ بعد میں ایم کیوا یم کے محمد حسین نے بھی اپنے ریمارکس پر معذرت کرلی لیکن دوسرے دن اس وقت نئی صورتحال پیدا ہوگئی جب کراچی کے مختلف علاقوں میں سندھی زبان بولنے والے بھائیوں کے خلاف نعرے لکھ دیئے گئے۔

جس کی ایم کیو ایم نے بھی مذمت کی۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ کوئی قوت سندھ کے حالات خراب کرنے اور لسانی کشیدگی پھیلانے کیلئے کوشاں ہے۔ سندھ اسمبلی میں لسانیت پر بحث ومباحثہ سے زیادہ اس وقت صورتحال کشیدہ ہوگئی جب ایک رکن اسمبلی نے سابق صدر آصف علی زرداری کو ڈان کہہ دیا تو رکن سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ نے کہا کہ سابق صدر انور مجید کے خلاف تحقیقات سے ہل گئے ہیں جس پر سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ سے نہ رہا گیا اورانہوں نے تحریک انصاف کو بے بھاﺅ کی سنائیں۔

اس دوران سب سے دانشمندانہ بیان صوبائی وزیراسمٰعیل راہو کا سامنے آیا۔ انہوںنے کہا کہ کچھ لوگ سندھیوں اوراردو بولنے والوں کو لڑاناچاہتے ہیں۔ ہم اس سازش کو ناکام بنادیں گے۔ سندھ اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ وفاق کی زیادتیوں کا رونا روتے رہے اورسندھ کے 29اضلاع کے ساتھ حکومت سندھ کی ناانصافیوں کا ذکر کرنا بھول گئے ۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاق صوبوں کو وسائل کی فراہمی میںحق تلفی کا مظاہرا کر رہاہے ،مگر تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ وفاق سے صوبوں کو اونے پونے پیسے تو مل رہے ہیں لیکن صوبہ سارے وسائل ہڑپ کررہا ہے اوراضلاع کو ان کے حصے کا چند فیصد بھی دینے کو تیار نہیں وفاق نے سندھ کو 50ارب کم دیئے تو صوبہ اضلاع کے 500ارب روپے دبائے بیٹھا ہے اورسارے اخراجات خود کررہا ہے۔

جھاڑو دینے کا کام بھی صوبہ نے تحویل میں لے لیا ہے اورمحض کوڑا اٹھانے کے نام پر اربوں روپے ہڑپ کئے جارہے ہیں۔ تمام اداروں میں بیورو کریسی سانپ بن کر بیٹھی ہے جو سارے فنڈ ہڑپ کرتی ہے۔ سارے ترقیاتی کام کاغذوں میں ہورہے ہیں۔ حکومت سندھ یا بلدیاتی وشہری اداروں میں ایک فائل تیار کی جاتی ہے بل بنایا جاتا ہے اوراس پر ادائیگی ہوجاتی ہے ۔

کراچی میں تین کلو میٹر سڑک 88کروڑ میں بنائی گئی جو پہلی بارش میں ٹوٹ گئی۔ بعض دوسری سڑکیں پر17کروڑ روپے فی کلو میٹر کے حساب سے بنائی جارہی ہیں۔ کراچی کے نزدیک 8½ارب روپے مالیت کی ایک سڑک پروزیراعلیٰ سندھ اوروزیر مواصلات ناصر شاہ کے درمیان تنازعہ پیدا ہوگیا۔جس کا پس منظر یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کے قریبی عزیز سپرنٹنڈنگ انجینئر نے کوسٹل ہائی وے کی ترقیاتی اسکیم ہتھیانے کیلئے کئی افسران کے براہ راست وزیراعلیٰ سندھ سے تبادلے کرادیئے جس پر وزیرمواصلات ناصر شاہ برہم ہوگئے اور بات پیپلز پارٹی کی قیادت تک پہنچ گئی۔


ادھر پیپلز پارٹی کو خدشہ ہے کہ ارب پتی فالودے والے کے کیس میں پیپلز پارٹی کو ملوث نہ کردیا جائے جعلی بنک اکاﺅنٹ کا یہ کیس بھی منی لانڈرنگ اسکینڈل کی طرح 2014کا ہے۔ صوبائی وزیر سعید غنی نے تو لگی لپٹی کے بغیر صاف صاف کہہ دیا کہ فالودے والے کے کیس کا رخ پیپلز پارٹی کی جانب موڑا جارہا ہے۔سعید غنی نے کہا کہ اس اسکینڈل کی تحقیقات ہم سے نہیں فالودے والے سے کی جائے ساری حقیقت سامنے آجائے گی دوسری جانب فالودے والا بھی اپنے اکاﺅنٹ سے 225کروڑ روپے نکلنے پر خوفزدہ ہے اس نے کہا کہ میری یومیہ آمدنی 300روپے ہے۔

اگرمیں 2ارب 25کروڑ کامالک ہوتا تو فالودہ کیوں فروخت کرتا میں 40گز کے مکان میں رہتاہوں اوراردو میں دستخط کرتا ہوں جبکہ بنک ٹرانزیکشن کے چیکوں پرانگلش میں دستخط ہیں۔ اس معاملہ کی تحقیقات ایف آئی اے کررہی ہے ایف آئی اے کی ٹیم نے بنک اکاﺅنٹ منجمد کردیا اورفالودے والے کے گھرپر پہرہ لگادیا ہے۔ایف آئی اے کی ٹیم جب انکوائری کیلئے فالودے والے کے گھر پہنچی تو اس کی ماں نے کہا یہ پیسے ہمیں دیدو۔

وہ بیٹے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگی اور کہا کہ تم اتنی رقم کے مالک ہو۔ ہم سے کیوں چھپائے رکھا ۔ سوال یہ ہے کہ جب اس بنک اکاﺅنٹ کا مالک منظر عام پر نہیں آیا تو کیا یہ رقم فالودے والے کو مل جائے گی۔ ایف آئی کا کا دعویٰ ہے کہ درحقیقت فالودے والے کا اکاﺅنٹ کسی اہم سیاسی شخصیت کا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

sawa do arab rupay ka jaali account asal ki talaash is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 October 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.