برصغیر کے مسلمان ایک لمبے عرصے تک ایسے مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرتے رہے جس کو حاصل کرنا کسی معجزہ سے کم نہ تھا۔ مسلمانوں نے جس سلطنت سے آزادی کا مطالبہ کیا اس سلطنت کے عروج کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آج کی سپر پاور امریکہ جیسے ملک بھی اس کی کالونی تھے۔ ایک ایسی سلطنت جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کے عروج کا سورج کبھی غرورب نہیں ہوتا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد زوال کا شکار ہونے لگی اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کا ایک الگ اور خودمختار ریاست بنانے کا خواب تعبیر کے مراحل میں داخل ہونے لگا اور برصغیر کے مسلمانوں کی تحریک آزادی زور پکڑنے لگی اور بلآخر 14 اگست 1947 کو مسلمان اپنے لئے ایک الگ اور خود مختار ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جہاں پہ وہ اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر آزادی سے زندگی بسر کر سکیں جدو جہد آزادی کے اس طویل سفر کے دوران لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کیں جن میں ایک کثیر تعداد ان مسلمان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی تھی جن کی عصمتوں کو کافروں نے پامال کیا۔
(جاری ہے)
اب تخریب کاری کے کچھ شروعاتی پہلو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ جب بانی پاکستان اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور عظیم قائد محمّد علی جناح بستر مرگ پر تھے تو ہم نے گاڑی پہنچانے میں دیر اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل محض اس لئے کروایا کہ اب پاکستانی انہیں اپنے محسن نہیں بلکہ سیاسی مخالفین سمجھنے لگے تھے یہ دونوں رہنما ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے وطن پاکستان کی عمارت کی بنیاد رکھی اور ہم نے ان کو اسی عمارت کی چار دیواری کے اندر سپردخاک کر دیا جس کو تعمیر کرنے میں ان جیسے عظیم رہنماوں کی دن رات کی محنت اور لاکھوں مسلمانوں کی عصمتیں اور زندگیاں قربان ہوئیں۔
اور تو اور ہم نے مادر ملّت فاطمہ جناح کا اپنے بھائی کی وفات کے بعد دیا گیا ریڈیو پیغام تک فوراً نشر نہیں کیا اور اس کو نشر نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ پیغام سچائی پر مبنی تھا اور ایک لمبے عرصے کے لئے ان کو قوم سے خطاب بھی نہیں کرنے دیا گیا اور جو مشرقی پاکستان کے ساتھ ہم نے کیا اس کا تذکرہ سن کے تو بے شرمی اور ہٹ دھرمی جیسے لفظ بھی شرما جائیں 1947 سے لے کر 1971 تک کی بد انتظامی اور انتشار پہ مبنی پالیسیوں کے نتائج تو بلاشبہ سنگین ہی ہونے تھے اور ہم مشرقی پاکستان کو خود سے جدّا کر بیٹھے لیکن بجائے اس کے کہ ہم ماضی کو غلطیوں سے سبق سیکھتے اور بچے کھچے پاکستان اور پاکستانیوں کو جوڑنے کا سوچتے ہمارے حکمرانوں کی توجہ ہمیشہ اپنے منظور نظر علاقوں یا صوبوں پر ہی مرکوز رہی اور جو اقدام ہمارے حکمرانوں نے اٹھائے وہ قوم کو توڑتے اور نسل پرستی کو فروغ دیتے رہے۔
ہمارے حکمرانوں نے ''پاکستان زندباد'' کے نعرہ کی بجائے عظیم بلوچستان، سندھو دیش، پختونستان اور جاگ پنجابی جاگ کے نعرہ کو فروغ دیا حالانکہ بانی پاکستان قائد اعظم نے تو ہمیں جو تلقین کی تھی وہ یہ تھی کہ ''ریاست کے ساتھ ہمارا فرض اکثر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہمیں مشترکہ بھلائی کے لئے اپنے انفرادی یا صوبائی مفادات کو مشترکہ مقصد میں غرق کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے ریاست سے ہمارا فرض سب سے پہلے آتا ہے پھر ہمارا فرض ہمارے صوبے سے پھر اپنے ضلع سے پھر اپنے شہر سے پھر اپنے گاؤں کا اور پھر خود سے'' لیکن ہم نے تو ہمیشہ ریاست کو سر فہرست رکھنے کی بجائے انفرادی مفادات کو ترجیح دی ہے حالیہ دنوں میں بلاول بھٹو زرداری صاحب نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہا کہ سندھی عوام کی کردار کشی کی جا رہی ہے اور کسی حکومتی نمائندے نے کہا ہے کہ سندھ میں کرونا وائرس سندھی لوگوں کی جہالت کی وجہ سے پھیلا ہے خدارا بلاول صاحب اس طرح کی بیان بازی سے پرہیز کریں سندھ کی عوام با شعور اور محب وطن ہے اور سندھ کی بہت ساری ایسی عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھی بھائی ہمارے ملک کا فخر تھے، ہیں اور انشاء اللہ رہیں گے آپ محض سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے کیوں ایک پاکستانی کو دوسرے پاکستانی کا دشمن بنانا چاہتے ہیں اس طرح کے بیانات سے ہی تو نسل پرستی زور پکڑتی ہے اور جہاں تک بات حکومت کی ہے تو اس کی خود غرضی کا معیار یہ ہے کہ وہ کرونا وائرس سے نمٹنے کی پالیسیاں بنانے کی بجائے اٹھارویں ترمیم سے چھیڑ خانی کی پالیسیاں مرتب کرنے کے لئے تگ و دو کر رہی ہے۔
جنوبی پنجاب کے لوگوں کو بھی ایک عرصہ سے بس لارے ہی لگائے جا رہے نہ تو اسے الگ صوبہ بنایا جا رہا ہے اور نہ ہی اس کی پسماندگی ختم کرنے کے لئے کوئی مثبت اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن پاکستان کے حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ اگر اسی طرح وفاقی حکومتیں جنوبی پنجاب اور اس جیسے کچھ اور پاکستان کے ٹکڑوں جن کا نام لے کر میں خود اس تخریب کاری کا حصّہ نہیں بننا چاہتا کے مسائل کا خاطر خواہ حل نہیں نکالیں گی اور صوبائی حکومتیں انفرادی مقاصد کے حصول اور نسل پرستی کو فروغ دیتی رہیں گی تو مجھے ڈر ہے کہ پی ٹی ایم اور بی ال ایف جیسی کوئی اور علیحدگی پسند تحریک جنوبی پنجاب یا سندھ میں بھی سر اٹھا سکتی ہے لیکن آج میں ان حکمرانوں کو یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ان علاقوں میں کسی نئی تحریک نے سر اٹھایا تو پاکستان میں اب نہ تو کسی نئی تحریک کو دبانے کی طاقت ہے اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں میں باقی تحریکوں کی طرح اس کا حل نکلنے کی اہلیت ہو گی پھر نہ تو رہے گا بانس اور نہ ہی بجے گی بانسری۔ اللہ کی پاک ذات ہمارے پیارے پاکستان کی حفاظت فرمائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔