علی زید ی کا سچ ،عمران خان اور مقتدرہ

ہفتہ 24 اپریل 2021

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم رہنما اور حکومت کے وزیر علی زیدی کی نجی محفل میں کی گئی بات چیت سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہے۔علی زیدی نے جوتحریک انصاف،عمران خان اور حکومت کے بارے تحریک لیبک کے احتجاج کے تناظر میں کہا ہے ۔جس طریقے سے کہا ہے۔روایتی طور پر بالکل درست ہے۔علی زیدی نے یہ بھی کہا کہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ حکومت کیا ہے۔

عمران خان کو کون لایا ہے۔لغویات اور فحش گوئی کا بھی جم کے مظاہرہ کیا گیا ہے۔علی زیدی کی وائرل ویڈیو سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے اندر  بڑے پیمانے پرٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔گلی محلوں میں بھی تحریک انصاف کے کارکنوں نے منہ موڑ لیا ہے۔اب وہ برملا کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔عمران خان اتنا کمزور اور بزدل نکلے گا۔

(جاری ہے)

ہمیں یہ توقع نہیں ہرگز نہیں تھی۔حلقہ احباب میں ایک پی ٹی آئی کی سرگرم کارکن ہے۔اب وہ بہت شرمندہ ہے۔کہتی ہے اب عمران خان کا نام لینا بھی اچھا نہیں لگتا ہے۔بعض توپی ٹی آئی کے جھنڈے اور ٹوپیاں گھر سے نکال کر چوراہے میں لاکر جلارہے ہیں۔عہدے دار تحریک انصاف کی بنیادی رکنیت سے استعفے دینے کے اعلان کررہے ہیں۔خدا لگتی ہے۔پی ٹی آئی کے کارکنوں کی حالت پر افسوس ہوتا ہے۔

سب خواب ہی چکنا چور ہوئے ہیں۔
راولپنڈی کے ایم پی اے تنویر بٹ نے جہانگیرترین سے ملاقات کرکے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔جس کا مطلب ہے کہ جہانگیر ترین کا قافلہ ترقی کررہا ہےیعنی عمران خان اب جماعت کے اندر بھی بلیک میل ہوں گے۔اطلاعات ہیں کہ بلیک میل ہورہے ہیں ۔جہانگیر ترین کا پلہ دن بدن بھاری ہوتا جارہا ہے۔پی ٹی آئی کی منتشر صفوں میں یہ خیال بھی راسخ ہورہا ہے کہ مقتدرہ عمران خان سے جان چھڑوا کر جہانگیر ترین کو آگے لا رہی ہے۔

اس لئے جہانگیر کی قربت ہی مفید اورنتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔
تحریک انصاف میں مفادپرستی ،خوشامداور مقتدرہ کی بیساکھیوں کے ساتھ چلنے کی رویت کے بانی بھی جہانگیر ترین ہیں۔جو آج دعویٰ کرتے ہیں کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانے والے ہی وہ ہیں۔اگر ونر ہارسز کو گھیرکر نہ لاتے تو پھر نتائج 2013 والے ہی برآمد ہونے تھے۔
ملکی سیاستدان ماضی سے سبق حاصل کرنے کی بجائےبار بار اک ہی سوراخ میں ہاتھ دینے کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔

عمران خان کی وزرات عظمیٰ سے شاید کچھ سبق حاصل کریں ۔انہیں علی زیدی کا ویڈیوکئی بار دیکھنے کی ضرورت ہےتاکہ عبرت پکڑیں اور عوامی طاقت پر بھروسہ کریں بصورت دیگر یہ سفر رائیگاں ہی رہے گااور طاہر القادری جیسی مایوسی دیکھنا پڑے گی اور ملک سے بھاگ جانے میں ہی بھلائی ہوگی۔سنا ہے موصوف دیار غیر میں امن و اطمینان سے زندگی کررہے ہیں۔
ایک زمانہ تھا ۔

ملک پر ایک غیر آئینی حکومت تھی اور آئین معطل تھا۔احتساب کا نعرہ بھی آج ہی کی طرح الاپا جارہا تھا۔جب ڈکٹیٹرنے اپنی ڈکٹیٹر شپ کو جمہوری رنگ میں رنگنے کی ناکام کوشش میں مرضی کے انتخابات کا ڈرامہ رچایا تھا اور طاہر القادری قومی اسمبلی میں در آئے تھے۔واقفان حال بتاتے تھےکہ عوامی تحریک کے کارکنان نے قائد انقلاب سے ایک اجلاس میں سوال کیا کہ ہمارا ایک سیٹ سے کیا ہوگا اور ہم کیا کر سکیں گے۔موصوف فرمایا کرتے تھے کہ ہزاروں خربوزوں کو کاٹنے کے لئے ایک چاقو ہی کافی ہوتا ہے۔پھر سب نے دیکھا کہ چاقو اسمبلی چھوڑ کر ہی بھا گ تھا۔علی زیدی کے مطابق پی ٹی آئی کے سارے چاقو کند ہیں بلکہ کند کردیئے گئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کنڈے چاقو اسمبلی چھوڑ کر کب بھاگتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :