ہماراہمسایہ قصاب ہے!!!

بدھ 21 اکتوبر 2020

Ayesha Noor

عائشہ نور

بھارت کی حکومت بانی ایم کیو ایم , کالعدم ٹی ٹی پی , پی ٹی ایم اور بلوچ شرپسندوں کو مالی معاونت فراہم کرتی رہی  , بلوچستان  میں بھارتی مداخلت کاسب سےبڑاثبوت " کلبھوشن یادوو" ہے  ۔ بھارت نے بقول معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معیدیوسف پاکستان میں تین خونریز دہشتگردحملےکروائے جس میں چینی قونصل خانے پر حملہ , پی سی گوادر حملہ اور اسٹاک ایکسچینج حملہ شامل ہے۔

اس کے علاوہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کا ماسٹر مائنڈ بھی بھارتی خفیہ ایجنسی " راء " سے مکمل رابطے میں رہا۔  فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک رپورٹ میں بھارت کی جانب سے کالےدھن کی غیرقانونی نقل وحرکت اور خطے میں دہشتگردوں کی مالی معاونت کا انکشاف ہوا ہے۔ جو منی لانڈرنگ 2011ء سے 2017ء دوران ہوئی اس میں بھارتی نوادرات کےاسمگلر بھی ملوث ہیں، رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی بینکوں کی ڈومیسٹک برانچز نے رقوم  وصول کیں یا آگے بھجوائیں ۔

(جاری ہے)

44  بھارتی بینک جو منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے جن میں پنجاب نیشنل بینک، کوٹک مہاندرا، ایچ ڈی ایف سی، کنارہ بینک، انڈس لینڈ بینک، بینک آف بروڈا شامل ہیں۔عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارتی بینکوں نے 3201 غیر قانونی منقلیوں کے ذریعے 1 ارب 53 کروڑ ڈالرز کالے دھن کی نقل وحرکت کی ، اتنی زیادہ رقم کہاں گئی ؟ اور کس نے کس مقصد کیلئے استعمال کی؟رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ کا یہ پیسہ دہشت گردی، منشیات اور مالی فراڈ میں استعمال کیا گیا۔

  سونے اور ہیروں کی غیرقانونی منتقلی  کا بھی انکشاف ہوا ہےجبکہ انڈین پریمیئر لیگ میں بھی منی لانڈرنگ کا استعمال ہوا ہے۔اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں کیرالہ اور آسام میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کی نشاندہی کی جاچکی ہے ۔ بھارت پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کےلیے دہشتگردوں کو اربوں روپے فراہم کرچکا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ بھارتی حکومت کی اتنے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کو مالی معاونت کی فراہمی کے باوجود بھارت ابھی تک " فنانشل ایکشن ٹاسک فورس " کی بلیک لسٹ میں شامل کیوں نہ ہوسکا ؟؟؟ اس کا جواب ہے پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کی بھارت نوازی  ہے۔

اس کی ایک مثال " کلبھوشن یادو"  کا  مقدمہ ہے ۔ جس کا پس منظریہ ہےکہ 29 مارچ 2017 کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی صدر پاکستان ممنون حسین کے حکم پر ایک معاہدے پر عالمی عدالت انصاف  میں دستخط کیے جس میں واضح طور یہ لکھا جاتا ہے کہ پاکستان کسی بھی ریاست کے ساتھ دو طرفہ معاملات یا تنازعات میں ” Compulsory Ipso Facto" کو تسلیم کرتا ہے۔

اس کے بعد معاہدے کے آخری پیرے یعنی ملیحہ لودھی کے دستخط سے اوپر یہ لکھا جاتا ہے کہ ” یہ نیا معاہدہ پرانے معاہدے کو منسوخ کرتا ہے جو 12 اکتوبر 1960 کو دستخط ہوا تھا یہاں پر ” Compulsory Ipso Facto " کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی پاکستان کے خلاف مقدمہ  دائرکرتا ہے تو پاکستان کو لازما اس کو قبول کرنا پڑے گا اور اس  کے فیصلے کو بھی ,  یعنی پاکستان کو پابند بنایا گیا ورنہ اس معاہدے سے پہلے پاکستان کا معاہدہ آپشنل تھا یعنی اگر وہ چاہتا تو اپنے خلاف کسی بھی ملک کے مقدمے کو قبول  کرتا یا نہ کرتا ۔

ساتھ ساتھ عالمی عدالت کے فیصلے کو قبول نہ کرنے کا بھی اختیارتھا ۔  اس نئے معاہدے کے بعد پاکستان بھارت کے ساتھ ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ عدالتی تنازعے کو قبول  کرنے کا پابند ہو چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملیحہ لودھی نے ایسا کیوں کیا کس کے کہنے اور کس کے فائدے کیلئے کیا؟  اس کے بعد 10 اپریل 2017 یعنی ملیحہ لودھی کے معاہدے کے تقریبا 12 دن بعد پاکستان کی فوجی عدالت  کلبھوشن یادو کو سزائے موت سناتی ہے یعنی کلبھوشن کی سزا سے 12 دن پہلے ملیحہ لودھی کا یہ معاہدہ یہاں پر بہت معنی خیز بن جاتا ہے ۔

  28 اپریل 2017 کو سجن جندال ایک خصوصی ملاقات کے لئے وزیراعظم نواز شریف سے ملنے لاہور پہنچ جاتے ہیں لیکن ملاقات کوخفیہ رکھنےکےلیے دونوں مری پہنچ جاتے ہیں ۔ اس ملاقات کے بعد 15 مئی 2017 یعنی 17 دن بعد حکومت ہند کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے جاتی ہے -  18 مئی کو عالمی عدالت کلبھوشن کی سزائے موت کی سزا آخری فیصلہ آنےتک روک دیتی ہے -  17 جولائی 2017 کو عالمی عدالت کلبھوشن کی رہائی اور سزا معطل کرنے کی بھارت کی اپیل مسترد کرتی ہے,  ساتھ میں بھارت کو کلبھوشن تک جینیوا کنونشن کے تحت قونصلر رسائی اور سول عدالت میں اپیل کا حق دیتی ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی عدالت   میں بھارت کے تین حمایتی جج تھے جو پہلے کئی مواقع پر بطور بھارتیہ وکیل مقدمات لڑ چکے تھے۔

  پاکستان کو ان کے خلاف اعتراض اور ہٹانے کا حق تھا لیکن پاکستان خاموش رہا , اس کے علاوہ جب عالمی عدالت نے ہندوستان اور پاکستان کو ایک ایک ایڈہاک جج فیصلے والے ججوں کے پینل میں بھیجنے کا حق دیاتو ہندوستان نے اپنا جج بھیجامگر پاکستان نے نہیں بھیجا۔  عدالتی کاروائی کے وقت ہندوستان کی طرف سے واحد دلیل پیش کی گئی اور وہ یہ کہ نواز شریف نے وزیراعظم ہوتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ” پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث تھا“ الغرض حکومت شریفیہ نےنہ کلبھوشن کا مقدمہ ایمانداری سےسےلڑااورنہ کبھی ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا دفاع کیا ۔

نہ ہی دہشتگرد تنظیموں کو روکا اور نہ ہی منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات کیے  ۔ حتیٰ کہ جب پی ٹی آئی حکومت نے منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کو رقوم کی فراہمی روکنے کےلیے " بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس " کی شرائط پوری کرنے کےلیے قانون سازی کی تو حزبِ اختلاف نے واضح طورپر پارلیمان میں مزاحمت کی تاکہ پاکستان " گرے لسٹ " سے نہ نکل سکے۔ پی ٹی آئی حکومت سے میرا مطالبہ ہے کہ  " ایف اے ٹی ایف " میں بھارتی بینکوں کی منی لانڈرنگ اوربھارتی حکومت کی دہشتگردوں کو مالی معاونت کے ثبوت پیش کردےتاکہ بھارت کو " ایف اےٹی ایف بلیک لسٹ "میں شامل کروانے کے سنہری موقعےکا بھرپور فائدہ اٹھایاجاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :