سیاسی سابقے(دم چھلے)

ہفتہ 30 جنوری 2021

Hussain Jan

حُسین جان

سب سے پہلے تو آپ کو سابقے کی تعریف بتاتے ہیں تاکہ بات سمجھنے آسانی رہے.
لفظ کے شروع میں کوئی علامت لگا کر اس سے ایک نیا لفظ بنالیا جاتا ہے۔ اس علامت کو "سابقہ" کہتے ہیں۔ جیسے کہ "ادب" کے آگے "بے" لگا کر "بےادب" اور "سمجھ" کے آگے "نا" لگا کے "ناسمجھ" بنالیا جاتا ہے اور "مول" سے "انمول"۔۔۔۔اس مثال میں "بے" "نا" اور "ان" سابقے ہیں۔

(جاری ہے)


اب اس کا تعلق سیاست سے جوڑتے ہیں کہ سابقے کس طرح سیاست پر اثرانداز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں.

اردو کے لاتعداد الفاظ ایسے ہیں جو ان سابقوں یعنی کہ دم چھلوں کے بغیر ادھورے ہیں. اسی طرح بہت سے پاکستانی سیاستدان بھی ایسے ہیں جو دم چھلوں کے بغیر زیرو ہیں.
کچھ دن پہلے آپ نے ایک ویڈیو کلپ دیکھا ہوگا جس میں مولانا فضل الرحمن صاحب کسی جگہ پر لوگوں کے اجتماع سے پرجوش خطاب کر رہے تھے کہ اسی دوران پیچے سے ایک کارکن اسٹیج پر دوڑا آتا ہے اور نعرہ تکبیر کی آواز بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے.

مولانا چونکہ اس وقت جلالی تقریر کررہے تھے لہذا اس کارکن کو بری طرح جھڑک کر پیچھے دھکیل دیا. اس کارکن نے دم چھلہ بننے کی بہترین کوشش کی تھی مگر افسوس وقت ٹھیک نہیں چنا.
آپ نواز شریف، بے نظیر، زرداری، شہبازشریف، بلاول، مریم نواز اور عمران خان تک کو بھی غور سے دیکھیں آپ کو ہر وقت ان کے ساتھ کوئی نا کوئی دم چھلہ نظر آئے گا. میڈیا پر بات جیت ہورہی ہو تو یہ لوگ دائیں بائیں ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں اور وقتافوقتا درمیان میں کان میں کوئی بات بتا کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں.


آپ لوگ یہ مت سوچیں کہ یہ دم چھلے صرف کارکنان ہی ہوتے ہیں. بلکہ بڑے بڑے نامور سیاستدان بھی سابقوں کی لسٹ میں کھڑے نظر آتے ہیں. ن لیگ سے خواجہ آصف، سعد رفیق، احسن اقبال، پرویز رشید رانا ثناء اللہ اور جاوید لطیف جیسے تمام نام نہاد راہنما اپنے لیڈرز کے سابقے یعنی دم چھلے ہیں. اسی طرح پیپلز پارٹی میں، شہلا رضا، احتزاز احسن، مراد علی شاہ، خورشید شاہ، اور دیگر بھی دم چھلے ہیں.

خان صاحب کے اردگرد بھی بے شمار دم چھلے دیکھائی دیتے ہیں.
دیکھنے میں یہ سابقے ہر وقت اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں. مگر حقیقت میں جیسے ہی کوئی برا وقت آتا یے یہ پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں اور بہترین وقت کا انتظار کرتے ہیں یا وفاداری بدل لیتے ہیں.
حکومتی جماعت میں موجود دم چھلے سب سے خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ ان کی گرفت لیڈر کے ساتھ ساتھ حکومت پر بھی ہوتی ہے.

یہی وزیر مشیر ہوتے ہیں اور ملک کو مشکلات سے نکالنے کی آڑ میں مزید دلدل میں دھکیل دیتے ہیں.
اپوزیشن میں موجود دم چھلے بڑے دھیرے انداذ سے آگے بڑھتے ہیں. یہ چونکہ حکومت میں نہیں ہوتے اس لیے حکومت وقت کے اعتاب سے بچنے کے لیے سوچ سمجھ کر گفتگو کرتے ہیں.
سرسید احمد خان تو ان دم چھلوں کو خوشامدی بھی گردانتے ہیں. یہ ہر وقت صاحب بہادر کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں اور خود کے مفاد حاصل کرتے رہتے ہیں.

یہ دم چھلے ہی ہوتے ہیں جو نااہل ترین فیصلوں پر بھی واہ واہ کرتے ہیں. لیڈران سے لے کر کارکنان تک یہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں. ہر چھوٹے موٹے کن ٹٹے نے دم چھلے ضرور رکھے ہوتے ہیں جن کا کام صرف تالیاں بجانا ہوتا ہے. یہ اہم ترین فیصلوں پر بھی اثرانداز ہوتے
ایک نا اہل آدمی ہی بہترین سابقہ بن سکتا ہے. کیونکہ وہ دوسروں کی کارکردگی پر ہی اتراتا ہے اور خود کسی کام کے نہیں ہوتے.


یہ تو لیڈران کی زمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو ایسے دم چھلوں سے دور رکھیں اور ملکی مفاد میں بہترین فیصلے کریں. بہتر سے بہتر ٹیم کی تشکیل دیں. بہترین دماغ اور مخلص لوگوں کو اہم زمہ داریاں سونپیں. اسی سے ملک و قوم تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہوسکتا ہے.
پاکستان کو بنے کم و بیش 80 سال ہونے والے ہیں. کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے پاکستانیوں نے کوئی دوائی، کوئی ٹیکنالوجی، کوئی جڑی بوٹی کوئی سائینسی الات ایجاد یا دریافت کیے ہوں.

یہاں سرکاری افسران کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں. بیوروکریٹس اور دیگر اداروں کے افسران کو وہ سہولیات میسر ہیں جن کا خواب ترقی یافتہ ممالک کے افسران دیکھ بھی نہیں سکتے. سیاستدانوں نے سیاسی زندگی کا بڑا حصہ مال کمانے اور جوڑنے میں صرف کردیا.
یہاں گندم کی بہتات ہے، گنا بےشمار ہے، چاول، کپاس، پھل اور سبزیاں قدرت نے ہمیں دے رکھی ہیں.

اس کے باواجود یہاں ہر سال ان چیزوں کی کمی واقع ہوجاتی ہے. اور اگر موجود ہوں تو مہنگے داموں بیچی جاتی ہیں. عوام کا معیار زندگی روز بروز نیچے کی طرف جارہا ہے. کرپشن میں ہم آزاد ہیں. تعلیمی معیار انتہائی ناقص ہے. انرجی اور دیگر چیزیوں میں بھی بہت پیچے ہیں. بے روزگاری اور مہنگائی بھی عروج پر ہے. تو ایسے میں عوام کدھر جائیں. حکمران کو سابقے یعنی دم چھلے سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتے ہیں. ایک بات یاد رکھیں یہ دم چھلے پاکستان کی بربادی کے زمہ دار ہیں. عوام کو چاہیے کہ ان لوگوں کو پہچانے اور ان سے جان چھڑائیں. یقین کریں اسی میں پاکستان کی بقاء ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :