حضرتِ ابو االا ثر حفیظ جالندھری -کچھ یادیں

جمعرات 17 جنوری 2019

Majeed Ghani

مجید غنی

میرے شعور نے ابھی آنکھ نہ کھولی تھی کہ میں لفظ کے صحیح مفہوم کے مطابق بچہ تھا کہ ایک دن میری امی ابو کو ملنے کے لیے ایک چنچل سے بزرگ تشریف لائے وہ گھر میں کسی اور کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے میرے سامنے جھک کر عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگے جب میں ہنسا تو انہوں نے اپنی جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر مجھے دیتے ہوئے میری امی سے کہا کہ ہو بہو حمید کوثر کی تصویر ہے الله اس بچے کو زندگی دے اور میری طرح بڑا آدمی اور بوڑھا آدمی بنائے ۔

میرے ابو مئودب کھڑے تھے اور میری امی بھی سراپا نیاز تھیں اور میں کبھی دس روپے کے نوٹ کو دیکھتا تھا کبھی اس بزرگ کو جو صرف میری باتیں کر رہے تھے ابو نے گود میں لے کر مجھ سے کہا کہ'اس عطاپر دادا ابو کو آداب عرض کہو'میں نے تھوڑا سا ہاتھ اُٹھا دیا اور وہ وفورِ محبت سے مجھے چومنے لگے۔

(جاری ہے)


ابو الاثر حفیظ جالندھری سے یہ میرا پہلا تعارف تھا وہ تشریف لے گئے تو میری دادی اماں جو قیام پاکستان کے انتخابات میں بھی اپنی چھوٹی سی جاگیرکی وجہ سے ووٹر تھیں انہوں نے مجھے کہا یہ دس روپے کا نوٹ نہیں دس لاکھ روپیہ ہے۔

یہ تمہارے ابو کے استاد ہیں جو انہیں اپنا بیٹا کہتے ہیں اور پاکستان کے قومی شاعر ہیں۔ میں چپکا باتیں سنتا رہا چھوٹے دادا جان اور بڑے داد ا ابو بھی بہت خوش تھے ۔ نانی اماں قدرے نک چڑھی تھیں انہوں نے کہا اتنا بڑا آدمی اور صرف دس روپے پوتا کہنے کے دعوے کے ساتھ مگر میرے دادا ابو نے اپنی بہن کو گھر ک دیا۔
حفیظ صاحب کی ہمارے گھر میں کبھی کبھی آمد رہتی لیکن خط اکثر آیا کرتے تھے میری امی وہ خط کھول کر شوق سے پڑھتیں اور پھر میرے ابو کے حوالے کر دیتیں۔

جب میں اسکول جانے کا قابل ہوا تو حفیظ صاحب کو بذریعہ خط اطلاع دی گئی تو وہ تشریف لائے اور ابو کو ایک بڑے افسر کے نام خط لکھ کر دیا تو ان کی سفارش سے داخلہ آسان ہو جائیگا۔ اور ایک دس روپے کا نوٹ پھر مجھے مرحمت فرما دیا اس مرتبہ میری امی کو بھی بہو کے طور ایک سو روپیہ دیا غالباً میرے داخلے کے اخراجات میں شرکت کیلئے اور پھر میں اسکول میں داخل ہو گیا مگر حفیظ# صاحب کا ملاقات کا انداز ویسا ہی شگفتہ تھا یہ دن میرے ذہن میں بیٹھ گیا شاید اب میرے شعور کی آنکھ کسی قدر کھل چکی تھی۔


وقت گزرتا گیا خط آتے رہے حفیظ صاحب اکثر تنہا آتے اور ایک یا دو مرتبہ اپنی چھوٹی صاحبزادی اور بیگم صاحبہ کو بھی ساتھ لائے۔ گھر میں بہت اہتمام ہوتا مگر حفیظ صاحب بہت کم کھاتے اور شفقت بے نیاز لٹاتے۔ میرے ساتھ حفیظ صاحب کی خوش خلقی کبھی کبھی مجھے حیران کر دیتی کیونکہ وہ بہت متلون مزاج آدمی تھے اور گھر میں سب کو ایک آدھ ڈانٹ ضرور پلاتے مگر میرے لئے ان کا چہرہ تبسم رہتا۔

میرا انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو حفیظ صاحب کسی مقدمے کے سلسلے میں ہمارے گھر تشریف لائے۔ میری امی آداب بجا لانے کے بعد یہ خوشخبری سنانے آئیں کہ آپ کا پوتا اب انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے لگا ہے انہوں نے امی کو کوئی لفٹ نہ کرائی اور ابو کے ساتھ مقصد کی بات کرتے رہے لیکن جب کرنل رشید کی کار انہیں لینے آئی تو پھر ایک دس کا نوٹ انہوں نے میرے ہاتھ میں تھما دیا اس مرتبہ میرے دل کو ایک دھچکا سا لگا کہ اس عمر میں اور اس گرانی کے دور میں بھی دس روپے لیکن ابو نے اس میں سوروپے کا اضافہ کر دیا اور میں نے حفیظ# صاحب کو کہتے سنا حمید کوثر یہ تم نے کیا حرکت کی ہے میں اب مجید کو ایک ہزار روپے دونگا اور پھر گھر کے اندر آگئے اس جھگڑے کا نقصان مجھے یہ ہوا کہ ابو نے اپنے سو روپے واپس لے لئے اور میرے پاس صرف دس روپے کا نوٹ رہ گیا۔

پاکستان کے قومی ترانے کے خالق اور شاہنامہ اسلام کے مصنف اور برصغیر کے عظیم انسان شاعر کا دیا ہوا دس کا نوٹ جو یونیورسٹی کی کنٹین میں صرف دس منٹ میں خرچ ہو گیا۔ لیکن مجھے ابھی بھی یہ خیال آتا ہے کہ اس نوٹ کو سنبھال کر جنابِ حفیظ کی ایک یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھتا۔
قریباً اسی دور کا ایک واقعہ مجھے یاد آرہا ہے جب مکتبہ کاررواں والے جناب حمید چوہدری صاحب کی رہائش گاہ پر حفیظ صاحب کی سالگرہ کی تقریب منعقد ہوئی جہاں والد صاحب مجھے اپنے ہمرکاب لیکر گئے تھے۔

اسی تقریب میں مجھے پروفیسر خواجہ محمد زکریا صاحب اور جناب پروفیسر محمد منور مرزا (مرحوم) جیسی شخصیات سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔
والد صاحب کی کتاب ”دبستان“ کی تقریب لاہور چھاؤنی میں منعقد ہوئی۔ اس کا اہتمام والد گرامی نے چھاؤنی کے ریسٹورنٹ میں کیا۔ تقریبِ رونمائی میں جناب ابوالاثر حفیظ جالندھری اس وقت کے وفاقی وزیر جناب محمود علی کے علاوہ ادیبوں، شاعروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

سٹیج سیکرٹری کے فرائض برادرم حافظ شفیق الرحمن صاحب نے ادا کئے اور اپنے خوبصورت اندازِ گفتگو سے صدرِ مجلس سمیت تمام حاضرین سے داد وصول کی۔ تقریب کے اختتام پر حفیظ صاحب ہمارے گھر تشریف لائے تو والد صاحب، والدہ صاحبہ، میں نے اور تمام بہنوں نے ان کا استقبال کیا۔ میں تقریب میں بھی موجود تھا لیکن حفیظ صاحب کے گھر آنے کا سُن کر استقبال کے انتظامات کیلئے گھر آگیا تھا۔

ہم تمام بھائی بہنوں اور ہماری والدہ سے بہت شفقت سے ملے۔ والدہ کو بھی وہ اپنی بیٹی کہا کرتے تھے کیونکہ حفیظ صاحب کی ایک حقیقی بیٹی کا نام بھی سعیدہ تھا۔
اسی طرح مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ والد صاحب کے نہایت عزیز دوست جناب کرنل عبدالرشید (مرحوم) کے ہمراہ ان کی گاڑی میں میں اور والد صاحب حفیظ صاحب سے ملنے ان کے گھر ماڈل ٹاؤن گئے۔ بہت محبت سے ملے مجھے پیار کیا اور ہم دیر تک ان کے پاس موجود رہے۔

گفتگو کا انکا اپنا انداز تھا اور اس سے حفیظ کو جاننے والے تمام لوگ واقف ہیں۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا زمانہ تھا ان کی کابینہ کے مختلف ارکان کے بارے اور شعرا اور ادیبوں کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔
14 جنوری 1982 کو حفیظ صاحب کی سالگرہ کا اہتمام والد گرامی نے کیا۔ تقریب کینٹ کے ہی ایک ریسٹورنٹ میں منعقد ہوئی۔ تقریب کے پہلے دور میں حفیظ صاحب پر مضامین پڑھے گئے۔

اس کے بعد حفیظ صاحب کو ایک مالا پہنائی گئی جس میں 82 موتی جڑے تھے یہ فریضہ والد صاحب نے انجام دیا۔ بعد میں حفیظ صاحب کو سٹیج پر بلایا گیا اور آپ نے نہ صرف خطاب فرمایا بلکہ بعد میں حاضرین مجلس کی پرزور استدعا پر شاہنامہ اسلام کے کچھ حصے بھی سنائے۔ تقریب کے دوسرے حصہ میں انتہائی شاندار محفل مشاعرہ منعقد کی گئی۔ دیگر شاعروں اور ادیبوں کے علاوہ تقریب میں جناب پروفیسر محمد منور مرزا صاحب، جناب محمد طفیل صاحب، جناب حفیظ تائب صاحب، جناب پریشان خٹک صاحب، جناب پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے شرکت فرمائی اور ابوالاثر حفیظ جالندھری کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں اپنے تاثرات بیان فرمائے۔

تقریب کا اختتام قومی ترانے پر ہوا اور ہم سب کیلئے یہ بات باعث صد افتخار ہے کہ ترانہ جناب ابوالاثر حفیظ جالندھری نے اپنی آواز میں پڑھا۔ حفیظ صاحب کی آواز میں قومی ترانہ اس کے بعد کسی اور تقریب میں نہیں پڑھا گیا ۔
حفیظ صاحب اکثر والد محترم سے بذریعہ خط بھی رابطہ فرمایا کرتے۔ ان کے خطوط والد صاحب کیلئے ان کے پدرانہ جذبات کے بھرپور آئینہ دار ہوتے۔

انہوں نے ایک عدالتی دستاویز کے ذریعے والد صاحب کو اپنا متبنیٰ فرزند قرار دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنی حلفیہ تحریر میں ان کو اپنی علمی اور ادبی میراث کا وارث بھی قرار دیا۔ لیکن والد صاحب کو صرف اپنے استاد اور والد کی محبت اور شفقت سے غرض تھی یہی وجہ تھی کہ انہوں نے نہ صرف حفیظ صاحب کی زندگی میں بلکہ ان کی وفات سے اپنی وفات تک ہمیشہ ہر فورم پر حفیظ صاحب کا دفاع کیا اور ان کی قومی خدمات کو اجاگر کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔


حفیظ صاحب کی وفات کے بعد ایک طویل عرصہ تک جب تک صحت نے ساتھ دیا یوم حفیظ کا اہتمام کرتے رہے ان تقاریب کے حمید کوثر صاحب کے منفرد انداز میں چھپے ہوئے دعوت نامے بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔    
حفیظ صاحب کی آخری بیماری میں جس انداز میں جناب حمید کوثر نے حفیظ صاحب کی خدمت کی اس کے تمام احباب حفیظ معترف ہیں۔ والد صاحب صبح سویرے گھر سے چلے جاتے اور رات دیر تک ہسپتال میں ان کی تیمارداری اور خدمت میں مصروف رہتے۔

حفیظ صاحب کی سالگرہ کی روداد اور ان کی بیماری کے دنوں کی روداد ایک طویل مضمون کے متقاضی ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں اپنے والد کو ایک بہادر اور صبر کرنے والا انسان پایا لیکن مجھے یاد ہے کہ دو مواقع ایسے تھے جب میں نے ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب دیکھا۔ ایک 16 دسمبر1971 کو جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا اور ایک 21 دسمبر1982 کی شام جب ابوالاثر حفیظ جالندھری مرحوم اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    حفیظ صاحب کی وفات کے بعد ان کی حضرتِ علامہ اقبال کے پہلو میں تدفین کی وصیت اور اس کے بعد کے واقعات کی داستان بھی بہت طویل ہے اور ان صفحات میں نہیں سما سکتی۔
حفیظ جالندھری جیسی بلند پایہ شخصیات سے متعلقہ یہ یادیں میرے لئے سرمایہ اور ایک سعادت سے کم نہیں اور یہ سعادت مجھے اپنے والد گرامی جناب پروفیسر حمید کوثر مرحوم و مغفور کی وجہ سے حاصل ہوتی رہی جو ابوالاثر کے فرزند متبنیٰ اور نہایت عزیز شاگر دتھے۔
(21 دسمبر1982 جنابِ حفیظ جالندھری کا یومِ وفات ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :