محسن پاکستان

جمعہ 15 اکتوبر 2021

Mohammad Faisal

محمد فیصل

دن میں رات کا سماں تھا اوراسلام آباد کا آسمان آنسوبہارہا تھا۔۔۔ایک بڑے آدمی کی رخصتی تھی۔وہ بڑا آدمی جس کے سامنے ہم سب بونے ہیں۔۔۔۔مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان رخصت نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہماری شرم،غیرت اورحیا بھی ان کے ساتھ رخصت ہوگئی ہے۔۔۔
وہ آدمی جو سونے میں تولے جانے جانےکے قابل تھا اسے ہم نے جیتے جی زمین میں رول دیا تھا۔

۔۔۔سرکار سے چند ہزار روپے پنشن پانے والے ڈاکٹر صاحب آخر وقت تک نظر بند تھے۔۔۔۔وہ خود کہتے تھے کہ میرا سب سے بڑا پچھتاوا یہی ہے کہ میں نے اس قوم کو ایٹمی قوت بنادیا۔۔اگر ڈاکٹر صاحب نے ایٹم بم نہیں بنگلہ دیش بنایا ہوتا تو آج وہ بہت سی نظروں میں سرخرو ہوتے اور ان کا مقدر نظر بندی نہیں ہوتی۔۔۔۔
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جس شخص کو ہم نے جیتے جی ماردیا اس کو سرکاری اعزاز کے دفن کرکے ہم نے کون سی منافقت کا مظاہرہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

۔۔ڈاکٹر صاحب کی بدقسمتی کہ وہ میر جعفر نہ تھے اور ان کی یہ بھی بدنصیبی رہی کہ وہ میر صادق بھی نہ نکلے ورنہ خلعت پاتےاور جاگیروں سے نوازے جاتے۔۔۔۔وہ تو فخریہ کہتے تھے کہ بھوپال کی سرزمین نے نہ تو آج تک کوئی غدار پیدا کیا ہے اور نہ ہی کوئی قادیانی۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب اتنے بڑے آدمی تھے کہ پورا ملک بھی ان کا قرض چکانا چاہے تو چکا نہیں پائے گا۔

۔۔۔
مجھے یہ دیکھ کر کوئی افسوس نہیں ہوا کہ ان کے جنازے میں نہ صدر مملکت تھے اور نہ ہی وزیر اعظم ۔۔۔۔نہ وزرا کی فوج تھی اور نہ ہی مشیروں کے غول۔۔۔۔ان کے جنازے میں وہ ہزاروں لوگ شریک تھے جو دل سے ان کو اپنا محسن مانتے تھے۔۔۔۔۔یہ وزیر اور یہ مشیر اس قابل ہی نہیں تھےکہ اس نیک روح کو کاندھا دیتے۔۔۔۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اہنا فرض ادا کرکے چلے گئے۔

۔۔۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کب تک محسن کشی کرتے رہیں گے۔۔۔ہم قائد اعظم کو خراب ایمبولینس میں سوار کرادیتے ہیں۔۔۔۔قائد ملت کو بھرے مجمع میں گولی مروادیتے ہیں۔۔۔۔۔ہم محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن ہروادیتے ہیں ۔۔۔۔آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟؟؟مجھے تو لگتا ہے کہ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی قبر کے کتبےپر لکھوانا ہوگا  کہ "ڈاکٹر صاحب ! ہم شرمندہ ہیں۔۔۔۔ یہ قوم 75 سال بعد بھی سورہی ہے بالکل اس شہر خموشاں کے مردوں کی طرح "۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :