صدارتی نظام کی باتیں؟
پیر 24 جنوری 2022
(جاری ہے)
اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو چلتا کرنے کی کوشش میں بے دلی کا عنصر ابتداء سے ہی نمایاں ہے،پیپلز پارٹی نے جب ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن دیا اور پنجاب میں عثمان بزدار کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کی تو مسلم لیگ ن نے تعاون سے انکار کر دیا،پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وفاق میں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تجویز دی گئی،مگر ن لیگ نے تحفظات کا اظہار کیا،شنید ہے اب نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی تجویز کی حمائت کر دی ہے،شہباز شریف نے اس سلسلہ میں پیپلز پارٹی کی قیادت سے بات چیت کا سلسلہ بھی شروع کیا مگر آصف زرداری نے اس مرتبہ وزارت عظمٰی مانگ لی،شہباز شریف نے اس شرط کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد پیپلز پارٹی اپنی ہی دی ہوئی تجویز سے پسپا ہو گئی،پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی نے وزارت اعلٰی نئے اتحادیوں کو دینے کی بات کی مگر شہباز شریف اس پر بھی نہ مانے اور وزارت اعلیٰ کو اپنی پارٹی کا حق قرار دیا،اسمبلی میں ارکان کی تعداد کو دیکھا جائے تو شہباز شریف کی بات درست بھی تھی،مگر اس پیشکش کے بغیر اپوزیشن اتحاد کو مطلوبہ اکثریت نہیں مل سکتی تھی اور نہ ملی جس کے باعث پنجاب کا میدان چھوڑ کر اسلام آباد کو میدان بنانے کا فیصلہ ہواء مگر وہاں بھی اقتدار کا طمع راہ کی دیوار بن گیا۔
اس میں شک نہیں کہ ملک میں مختلف قسم کے نظام اپنائے گئے مگر ملک کو معاشی استحکام اور عوام کو ریلیف دینے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا،یہ سوچنے کی زحمت کسی نے نہ کی کہ ناکامی کی وجوہات کیا ہیں اپنی ناکامی اور نا اہلی کا الزام نظام پر دھر کر سب نے ظل الٰہی بننے کی کوشش کی،حالانکہ یہی نظام دنیا کے دیگر ممالک میں بھی رائج ہیں اور کامیابی سے چل رہے ہیں،واحد وجہ وہاں کی قیادت کا مخلص اور دیانتدار ہونا ہے،کسی فلسفی کا کہنا ہے کہ”نظام کوئی برا نہیں ہوتا بد ترین نظام اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو وہ خیر کی سبیل نکال لیتے ہیں لیکن بہترین نظام نا اہل قیادت کے ہاتھ میں دیا جائے تو وہ نظام ملک اور عوام کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا“ہماری ناکامی اور تنزلی کی ایک بڑی وجہ پالیسیوں اور نظام میں تسلسل نہ ہونا ہے،جبکہ جمہوریت ایک مسلسل منظم اور مربوط نظام ہے،مگر ہمارے ہاں حکومت بدلتے ہی پالیسی نظام حتٰی کہ منصوبے تک تبدیل کر دئیے جاتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں حکومت بدلنے سے چہرے بدلتے ہیں ان کا نظام اور پالیسی تسلسل کیساتھ چلتی رہتی ہے جس کی وجہ سے دیگر ممالک،صنعتکار اور درآمد برآمدکنندگان اعتماد کیساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کرتے ہیں اور نئے نئے معاہدے ہوتے ہیں۔
مملکت خداداد میں جمہوریت کو بہترین طرز حکومت تسلیم کیا جاتا ہے مگر یہ نظام بھی ہماری سیاسی قیادت کا مزاج اور عوام کا حال ٹھیک کرنے میں ناکام رہا ہے،کوئی جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیتا رہا اور کوئی جمہوریت کی آڑ میں بادشاہ بننے کی فکر میں مبتلا رہا،اسی وجہ سے جمہوریت کی اصل خوبیاں اختراعی تشریح میں غرق ہو گئیں،آج اختلاف کو جمہوریت کا حسن قرار دیکر حکومت کی راہ میں روڑے اٹکائے اور آئے روز نت نئی سازش کے تانے بانے بنے جاتے ہیں مگر اس طرز عمل سے صرف اختلافات کی گرد اڑائی گئی مگر جمہوریت کا حسن ماند پڑ گیا،سمجھ سے بالا ہے صدارتی نظام کا واویلا کرنے والوں کو یہ کیوں نہ سوجھا کہ اگر یہ کام پارلیمنٹ کے ذریعے ہواء تو اس کیلئے مکمل اکثریت کی ضرورت ہو گی جو حکومت کے پاس نہیں سادہ اکثریت سے آئین میں ترمیم نہیں کی جا سکتی،اور اگر یہ کام صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کیا گیا تو اول تو آرڈیننس کی مدت فقط تین ماہ ہوتی ہے،اور تین ماہ میں صدارتی نظام لانے کے خواہشمند کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتے،آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج بھی ہو سکتا ہے اور ملک کی اعلیٰ عدالت آئین کے منافی کسی بھی آرڈیننس کی تائید نہیں کرے گی،توسیع دے کر اس نظام کو زیادہ طول نہیں دیا جا سکتا،لہٰذا یا تو صدارتی نظام کی بات کرنے والے آئین سے ناواقف ہیں یا یہ خود ان کی خواہش ہے، ایسا کوئی منصوبہ زمین پر عمل پزیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
خواہش کو خبر بنانے کا رواج ہمارے ہاں بہت پراناہے،مگر
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محسن گورایہ کے کالمز
-
اعتماد سے عاری اپوزیشن
جمعرات 17 فروری 2022
-
ٹکے ٹوکری سیکرٹیریٹ
منگل 15 فروری 2022
-
مقامی حکومتیں ضروری ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
’’آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک‘‘
منگل 8 فروری 2022
-
پنجاب ،بلدیاتی انتخابات اور گورننس؟
جمعرات 3 فروری 2022
-
چیف سیکرٹری پنجاب ؟
پیر 31 جنوری 2022
-
مقامی حکومتیں اور با اختیار بیوروکریسی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کی باتیں؟
پیر 24 جنوری 2022
محسن گورایہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.