پنجاب ،بلدیاتی انتخابات اور گورننس؟
جمعرات 3 فروری 2022
(جاری ہے)
بڑا صوبہ ہونے کے ناطے پنجاب دیگر صوبوں کیلئے قابل تقلید ہے،چھوٹے صوبوں کی ضروریات پوری کرنے کیساتھ ان کی مشکل وقت میں امداد بھی اس کے فرائض میں شامل ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ پنجاب میں اس وقت گڈ گورننس خال خال ہی نظر آتی ہے، چند ایک کے سوا کوئی ادارہ کوئی محکمہ کام کرتا دکھائی نہیں دیتا،بڑا صوبہ جب خود انتظامی طور پر مفلوج ہو گا تو دیگر صوبوں کی کیا اور کیسے مدد کرے گا؟صوبہ کے انتظامی معاملات میں اونچ نیچ تو ابتدأ سے ہی جاری ہے مگر اب جبکہ حکومت کو انتخابی مہم میں جانے کی تیاری کرنا ہے،عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں کی پاسداری کرنا ہے مگر حکومت کے پاس بیچنے کو کچھ بھی نہیں، دلچسپ بات یہ کہ حکومتی ذمہ داران کو اس حوالے سے کوئی فکر بھی لاحق نہیں،عوام مہنگائی کے شکنجے میں بری طرح پھنس چکے ہیں،کوئی صورت اس سے رہائی کی دکھائی دیتی ہے نہ حکومتی سطح پر ایسے کوئی اقدامات دکھائی دیتے ہیں جن کو بروئے کار لا کر عوام کو مہنگائی سے چھٹکارا دلایا جا سکے۔ حالات اگر یہی رہے تو نہیں لگتا تحریک انصاف آئندہ الیکشن میں پورے قد سے انتخابی مہم میں شریک ہو سکے گی،جن دگر گوں اور مشکل حالات میں عوام کے شب و روز گزر رہے ہیں ان کو دیکھ کر نہیں لگتا عمران خان کا طلسم بھی کسی کام آسکے گا،اس قدر منتشر اور یکسوئی سے عاری اپوزیشن کے ہوتے ہوئے بھی حکومت عوام کو ریلیف نہیں دے پا رہی ،یہ بات بھی عوام کیلئے باعث حیرت ہے کہ جو قانون سازی کرنا مقصود ہو حکومت ہر حال میں کر لیتی ہے،مگر عوام کو ریلیف دینے کے معاملات میں اپوزیشن کا دکھڑ ا رویا جاتا ہے،حالانکہ حکومتی کارکردگی کے حوالے سے اپوزیشن اتنی ذمہ دار نہیں جتنی حکومت خود اور سرکاری مشینری ہے،صوبہ میں دو ایک کے سوا کوئی وزیر کام کرتا دکھائی نہیں دیتا،جس کے دیکھا دیکھی بیوروکریسی اور سرکاری مشینری بھی ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ رہی ہے،راقم نے ہمیشہ حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف و تحسین کی بلا وجہ تنقید سے اور ہر بات کا الزام حکومت کے سر دھرنے سے گریز کیا،مگر اس وقت جو صورتحال ہے اس کو دیکھتے ہوئے حکومتی اقدامات کی تائید اور تحسین نہیں کی جا سکتی۔
اب اگر ہم پنجاب کے انتظامی محکموں ،ڈویزنز،اضلاع کو دیکھیں تو روٹین کی کاروائی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ،یہ کس قسم کی گورننس ہے جو پنجاب میں پیش کی جا رہی ہے ،کئی کئی ماہ گزر جانے کے باوجود ہمیں بڑے محکمے چلانے کے لئے افسر کیوں نہیں ملتے؟ اوران محکموں کو اضافی چارجوں پر ہی چلانا پڑتا ہے۔شکر ہے کہ ہمیں ہیلتھ سیکٹر کے لئے اچھے افسر ملے ہوئے ہیں ،انکی بہتر کارکردگی نظر آتی ہے تو باقی محکموں کے حالات دگرگوں کیوں ہیں ؟ لگتا ہے اکثر سیکرٹریوں کی نبض ،سیکرٹری صحت احمد جاوید قاضی کو چیک کرانا ہوگی ورنہ ہم کتنے محکموں کے سیکرٹریوں کو رول ماڈل کے طور پر پیش کر سکتے ہیں ؟ہمارے کچھ محکمے تو ویسے ہی ٹھیکے پر چل رہے ہیں۔اسی طرح پنجاب کے دو بڑے محکمے اکٹھے چلانے والے افسر کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے مگر ان کو پوچھا نہیں جا رہا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ،چیف سیکرٹری اپنے دفتر کا تو بہت خیال کرتے ہیں کبھی ہمسایوں کا خیال بھی کر لیا کریں۔
مہنگائی کی لہر کا دنیا بھر کو سامنا ہے خاص طور پر ترقی پزیر ممالک انتہائی مخدوش صورتحال سے دوچار ہیں ، درآمد شدہ اشیاٗ کی بڑھتی قیمت کی تو سمجھ آتی ہے مگر مقامی طور پر تیار کردہ مصنوعات اور زرعی اجناس کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کی وجہ سمجھ نہیں آتی،قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں بھی ضلع انتظامیہ اور متعلقہ ادارے بے بس دکھائی دیتے ہیں،پرائس کنٹرول،مارکیٹ کمیٹیوں کا وجود کہیںدکھائی نہیں دیتا،جب کوئی پوچھنے والا نہیں تو منافع خور مافیا کا بے لگام ہونا فطری امر ہے، سب اپنی من مانی کر رہے ہیں،اب اگر تحریک انصاف کی قیادت واقعی چاہتی ہے کہ عوام کے سامنے سرخرو ہو اور آئندہ الیکشن میں آبرو بچا لے تو اسے مہنگائی کو قابو کرنا ہو گا،پولیس نظام میں انقلابی تبدیلیاں لا کر عوام کو تھانہ کلچر سے نجات دلانا ہو گی ۔کمشنرز،ڈپٹی کمشنرز،اسسٹنٹ کمشنرز کو متحرک کریں۔اچھے اور محنتی افسر لگائیں،راولپنڈی میں تعینات ہونے والے نئے کمشنر نور الامین مینگل بڑے ایکٹو نظر آرہے ہیں،اسی جوش اور جذبے کی باقی جگہوں پر بھی ضرورت ہے۔
مہنگائی کے خاتمے کے لئے سختی سے انتظامی اقدامات اٹھائیں ، ایسی ضلعی انتظامیہ جو بد دل ہے یا اس کے پاس کوئی حکمت عملی ہی نہیں اس میں تبدیلیاں کریں ،ایک با اختیار مجسٹریسی نظام کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے،یہ وہ نظام ہے جو انگریز دور سے کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا ،ترقی یافتہ ممالک نے بھی اسی نظام کو اپنایا اور معاملات کو مافیاز کے ہاتھ سے نکال کر ریلیف دیا،مارکیٹ اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو سیاسی عمل دخل سے نکالا اور ریاستی مشینری کا بھر پور استعمال کیا جس کے نتیجے میں کسی کی جرأ ت نہیں ہوتی عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کی،صرف پولیس نظام میں ہی اصلاحات کر دی جائیں تو بہت سے معاملات کو فی الفور حل کیا جا سکتا ہے،اگر ریاستی مشینری کو ایسے ہی بے لگام چھوڑ دیا گیا تو ممکن نہیں عوام کو ریلیف دیا جا سکے،عوام کو ریلیف دینا ہے تو صوبائی وزرأ کو دفاتر گھروں سے نکل کرمیدان عمل میں آنا ہو گا،جب تک متعلقہ وزیر متحرک نہیں ہو گا متعلقہ محکمہ بھی فعال نہیں ہو گا، صورتحال یہ ہے کہ صوبائی وزرا کہیں دکھائی نہیں دیتے ،حکومت کی طرف سے جاری مہنگائی کے اشاریے اب عوام کے ذخموں پر مرہم ثابت نہیں ہو سکتے،حکومتی اعداد و شمار مرتب کرنے والے بھی زمینی حقائق سے بے خبر ہیں ،ان کو مارکیٹ کی صورتحال کا اندازہ ہی نہیں،بس کاغذی کارروائی کر کے خود کو بری الذمہ کر لیتے ہیں،جسے اچھی گورننس قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محسن گورایہ کے کالمز
-
اعتماد سے عاری اپوزیشن
جمعرات 17 فروری 2022
-
ٹکے ٹوکری سیکرٹیریٹ
منگل 15 فروری 2022
-
مقامی حکومتیں ضروری ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
’’آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک‘‘
منگل 8 فروری 2022
-
پنجاب ،بلدیاتی انتخابات اور گورننس؟
جمعرات 3 فروری 2022
-
چیف سیکرٹری پنجاب ؟
پیر 31 جنوری 2022
-
مقامی حکومتیں اور با اختیار بیوروکریسی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کی باتیں؟
پیر 24 جنوری 2022
محسن گورایہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.