گریٹ عمران خان بمقابلہ کرونا زدہ اپوزیشن

جمعرات 2 ستمبر 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں موجودہ وزیراعظم جناب عمران احمد خان نیازی شاید واحد سیاسی شخصیت ہیں کہ جنکا موازنہ کسی اور سیاسی شخصیت سے کیا جاسکے۔ عمران خان کا شمار دنیا کے عظیم کرکٹرز میں کیا جاتا ہے، ایسے کرکٹر کہ جنکی بدولت کرکٹ کھیل بڑے شہروں اور امراء کلاس سے نکل کر چھوٹے چھوٹے شہروں، دیہاتوں گاؤں اور گلی کوچوں میں پہنچ گیا۔

کرکٹ کھیلی تو پاکستان سمیت پوری دنیا میں اپنے کروڑوں پرستار بنا لئے۔ جو انکی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ہزاروں روپے خرچ کرکے اسٹیڈیم پہنچ جاتے، کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے تو ورلڈکپ کی جیت کا سہرا پہن کر وطن واپس لوٹے۔ کرکٹ ٹیم کی سلیکشن میں سلیکٹرز سے زیادہ طاقتور تھے، جس کو چاہتے ٹیم میں شامل کرواتے اور جسکو چاہتے ٹیم سے نکلوا دیتے۔

(جاری ہے)

پاکستان کرکٹ ٹیم کی تاریخ میں شاید ہی ایسا طاقتور کپتان دیکھنے کو ملے۔

کرکٹ کو الوداع کہا تو سماجی سرگرمیوں کو شروع کردیا اور پرائیوٹ سطح پر مملکت کے پہلے کینسر ہسپتال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ سیاست میں آئے تو چن چن کر کرپشن سے پاک، شریف، قابل عقل و فہم غیر روایتی سیاسی شخصیات کو اپنی سیاسی ٹیم کا حصہ بنایا جن میں جسٹس وجیہہ الدین، سپریم کورٹ کے سینئر ترین وکیل حامد خان، فوزیہ قصوری جیسے افراد پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بنے۔

بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد برسر اقتدار آئے اور آج پاکستان تحریک انصاف اپنے اقتدار کی تیسری سالگرہ زور و شور سے منا رہی ہے۔ عمران خان پر قسمت کی دیوی کتنی مہربان ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ پارلیمنٹ میں انتہائی سادہ (بلکہ چند سیٹوں کی)  اکثریت کی حامل سیاسی پارٹی اس وقت اپنے اقتدار کے تین سال پورے کر چکی ہے۔اور بقیہ دو سالہ اقتدار بھی بخوبی پورے کرے گی۔

اس وقت پاکستان کے تمام ریاستی ادارے حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں جسکا اظہار خود عمران خان اور انکی پارٹی کے لیڈران کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان اس وقت بالا شرکت غیر پورے پاکستان (سوائے صوبہ سندھ) کے حکمران بن چکے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، جماعت اسلامی ودیگر سیاسی جماعتیں اپوزیشں جماعتیں کہلا رہی ہیں۔

یہ وہ جماعتیں ہیں جن کے سامنے پاکستان تحریک انصاف کو نابالغ /کم عمر جماعت کہا جاسکتا ہے۔ مگر حقیقت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کرونا وائرس کا سب سے زیادہ شکار پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں ہیں۔ اور یہ تمام جماعتیں یقینی طور پر قرطینیہ میں بیٹھی ہوئی ہیں ورنہ پاکستان تحریک انصاف کی تین سالہ بدترین حکومتی کارکردگی کیخلاف جھوٹا سچا احتجاج ضرور کرتیں۔

مزے کی بات ہے کہ عمران خان حکومت اپنے تین سالہ اقتدار کا پرزور جشن مناتی دیکھائی دے رہی ہے۔ جب کہ حالت یہ ہے کہ تین سالہ اقتدار میں چینی 55 روپے سے بڑھ کر 110 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ آٹا 35 روپے سے 70 روپے، 165 والا گھی 350 روپے، پٹرول 80 روپے سے 120 روپے، دالیں گوشت کے ریٹس غریب کی پہنچ سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ڈالر ریٹ 123 سے 167 گردشی قرضے 1100 ارب سے 2200 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔

آئے روز گیس، بجلی کے ریٹس کو بڑھا دیا جاتا ہے۔ بجلی 9 روپے فی یونٹ سے 22 روپے فی یونٹ۔ ملکی معیشت کو چلانے کے لئے وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں امپورٹڈ وزیر مشیروں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ آئے روز وزارت خزانہ اور ایف بی آئی کے سربراہان کو تبدیل کیا جارہا ہے۔حکومتی نظام چلانے کے لئے آئے روز چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس و دیگر سرکاری افسران کے تبادلے معمول بن چکے ہیں۔

کبھی گندم اسکینڈل، کبھی چینی اسکینڈل، کبھی پٹرولیم اسکینڈل تو کبھی ادویات اسکینڈلز منظر عام پر آئے مگر موجودہ دور حکومت میں حکومتی اراکین کا احتساب نہ ہوسکا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن درجہ بندی میں پاکستان میں کرپشن ریٹ  موجودہ حکومت میں پچھلے دور حکومت کی نسبت زیادہ قرار دیا جارہا یے۔ پی ٹی آئی تین سالہ دور حکومت میں غربت اور مہنگائی کا لیول آسمانوں کو چھوتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے۔

حکومت سے ان اسکینڈلز اور ملکی معیشت کی بابت سوال کیا جائے تو مافیا مافیا والی طوطے مینا والی گردان سننے کو ملتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ مجال ہے کہ کرونا زدہ اپوزیشن جماعتوں نے ملک میں جاری اس مہنگائی اور موجودہ حکومت کے کرپشن اسیکنڈلزکے خلاف کوئی اک آدھ احتجاج ہی کیا ہو۔ اس معاملہ میں عمران خان کو بطور اپوزیشن لیڈر 100 میں سے 100 پورے نمبر دیئے جاسکتے ہیں کہ انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر 2013 سے 2018 تک کھل کر اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا۔

کبھی الیکشن دھاندلی پر احتجاج، کبھی مہنگائی پر جلسے جلوس اور ریلیاں۔ اپوزیشن لیڈر عمران خان کی ہفتہ میں اوسطاً 2 سے 3 پریس کانفرنس ہوا کرتی تھیں۔ موجودہ کرونا زدہ اپوزیشن کا سب سے زیادہ زور 2018 کے الیکشن دھاندلی پر ہے۔ کوئی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کرتا ہے تو کوئی الیکشن ریفارمز کی بات کرتا ہے۔ کوئی ریاستی اداروں پر تنقید کے نشتر برسا رہا ہے۔

کرونا زدہ اپوزیشن والو !!!  اگر آپ ووٹر کو عزت نہیں دوگے تو ووٹ کوعزت کیسے ملے گی؟  2018 الیکشن کو سلیکشن کہیں یا  دھاندلی یا پھر کچھ اور، الیکشن میں جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔2018 سے لیکر آج تک بقول اپوزیشن (دھاندلی زدہ) حکومت کو تو گھر نہ بھیج سکی، کم از کم مہنگائی کے خلاف ہی کوئی احتجاجی ریلی، جلوس نکال کر جمہوری اور عوام کے ہمدرد ہونے کا ثبوت پیش کردیں۔

2023 کے الیکشن میں کرونا زدہ اپوزیشن کے لیڈران کس منہ سے عوام الناس سے ووٹ مانگنے جائیں گے؟ یقین مانیں اس وقت عوام الناس جتنی حکومتی کارکردگی سے مایوس ہے اس سے کئی گنا زیادہ کرونا زدہ اپوزیشن سے مایوس ہوچکی ہے۔ یاد رہے سیاسی جماعتوں کا عوامی مسائل کو اجاگر کرنا اور حکومت کو عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئے پریشر میں لانے کے لئے پرامن احتجاج کرنا عین آئینی اور جمہوری حق ہے۔

بہرحال عمران خان کی قسمت پر صرف رشک ہی کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر کھل کر پچھلی حکومت کو ٹف ٹائم دیا اور بطور حکمران گونگی بہری کرونا زدہ اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگایا ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن لیڈر عمران خان کے تقریباً ہر وعدے اور دعوے پر یوٹرن لے لیاہے مگر عمران خان کی خان کی اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہوگی کہ انکے سپورٹرز عمران خان کے ہر یوٹرن کا دفاع بھی بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کرونا زدہ اپوزیشن کو عوامی مسائل اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف پرزور اور پرامن احتجاج کرکے حکومت کو دباؤ میں لانا چاہیے تاکہ مہنگائی کی ستائی عوام الناس کو کچھ ریلیف مل سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :