دوائی ہے نہ مسیحائی۔۔۔!

ہفتہ 8 جنوری 2022

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

دل خون کے آنسو روتا ہے، اور درد جگر کا کوئی اندازہ نہیں کہ ان لوگوں کا کیا کیا جائے جو سارے معاشرے کے لیے درد سر ہیں، معاشرے کی کچھ اپنی بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں، کیا انسانیت کا قتل سب نے اپنا فرض بنا لیا ھے، ؟ بڑے درد سے یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ کیا مسلم معاشرے میں یہ" درد سر" چیزیں کیوں ہوتی ہیں؟ کسی تربیت کا قصور ہے، حکومت اور قوانین کی کمی ہے، یہ سب کچھ ھوگا مگر پھر بھی معاشرہ حکومتوں سے کھڑا نہیں ہوتا، مثلآ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار مکہ اپنا ثالث مقرر کرتے تھے، اس بنیاد پر کہ آپ صادق اور امین ہیں، دوسری طرف معاشرے میں جھوٹ بولنے کا رواج بہت ہی کم تھا، کیا یہ تربیت کسی حکومت یا مذھب نے کی تھی؟ جب گواہوں کو طلب کیا جاتا تو وہ سچ بولتا تھا، بات سننے اور عمل کے لیے تیار ہوتا!
  یہاں آج کل کے مسلم معاشرے میں اجتماع سماج کی ان گنت برائیاں ہیں جو براہ راست انسانیت کو قتل کر رہی ہیں، اور بڑی ڈھٹائی سے یہ کام جاری ہے، ان سماجی برائیوں پہ بہت سے لوگ ، بہت کچھ لکھ چکے ہیں، مگر شرم مگر تمہیں نہیں آتی، مثلآ ناجائز منافع خوری، ناپ تول میں کمی اور سب سے بڑھ کر ملاوٹ، وہ بھی کھانے پینے کی اشیاء میں، ان سے لگنے والی بیماریوں کا ایک سیلاب امڈا ، اس سیلاب کو روکنے کے لیے لوگ مسیحا کی تلاش میں نکلے، جہاں مسیحائی نہیں رسوائی  ملی، ایسا دیس ھے کہ جہاں لوگوں کی جانوں سے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کھیلا جاتا ہے، اچھے ڈاکٹر بھی موجود ہیں لیکن جان کے لالے پڑنے والوں ، مجبور اور بے بس لوگوں کو جعلی ادویات کے پنڈل تھاما کر سب سکھ کی نئید سو رہے ھیں، کوئی جاگنے کا نام نہیں لیتا، کیونکہ ان کا پیٹ اور بینک بھرا جا رہا ہے، جعلی ادویات بنانے والے کمپنیوں کے سیٹھ اور ان کا پیٹ  سب سکون میں ھے، مسیحا ان کے آگے ھاتھ ، پاؤں کاٹ کر دے چکے ہیں، معاشرہ چپ سادھے ہوئے ھے، یہ سلسلہ دراز در دراز ھو رہا ھے،
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس ڈویلپمنٹ کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2015 ء سے اب تک 4 ھزار، 8  سو دوائیاں غیر معیاری اور 454 بالکل جعلی مارکیٹ میں ہیں، 1710 دوائیوں کی ورائٹی جعلی، اور سینکڑوں ناقص برانڈ کی ہیں، 2012ء میں بننے والی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے سوائے ملی بھگت کے کوئی کام نہیں کیا، دوائی جعلی بن رہی ہے، بک رہی اور وہ بھی ھوشربا قیمتوں کے ساتھ، کیا معاشرے کا اس سے بڑا المیہ کوئی ھو سکتا ھے، کیا یہ انسانوں کا معاشرہ ھو سکتا ھے؟ کیا زندگیوں سے کھیلنے والے قاتل نہیں ھوں گے؟ کوئی بھی حکومتی ادارہ بنتا ہے وہ صرف چمک دمک تک محدود ہوتا ہے، ڈاکٹر عاصم حسین نے تو میڈیکل کونسل تک کو نہیں چھوڑا، اس سے بڑا جرم کیا ھو گا، میری آنکھوں کے سامنے 2015 ء میں ایک واقعہ ھوا ایک نوجوان، مصنوعی سانس لے رہا تھا، جس کو دستی آلے سے سانس دی جا رہی تھی، جب وینٹی لیٹر پر منتقل کرنے کے لیے دوسرے ھسپتال شفٹ کیا جا رہا تھا تو اس کی موت واقع ھو گئی، صرف اس لئے کہ دستی سانس دینے والا آلہ موجود نہیں تھا، ڈاکٹر ساتھ تھا مگر محترم کو اتنی خبر نہیں تھی کہ کیا ، کیسے کرنا ہے، میں نے ازراہ شفقت پوچھ لیا آپ نے کہاں سے پڑھا کہنے لگے، رشیا سے، اب کیا کیا جائے؟، اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ اچھے ڈاکٹر نہیں ہیں، بلکہ پاکستان میڈیکل کی دنیا میں انہی ڈاکٹرز کی وجہ سے بیرون ممالک منفرد پہچان رکھتا ہے، مگر سہولتوں کا فقدان اپنی جگہ، دوائیاں ہی غیر معیاری، ناقص اور جعلی ہیں، ایسے میں درد سر نہ ھو تو کیا ھو، یہی وجوہات ہیں کہ ملک میں ھیپاٹائٹس، دل اور شوگر کی بیماریوں میں اتنا اضافہ ھو چکا ھے کہ روز ھزاروں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ھم حکم الٰہی سمجھ کر قبول کرتے جس رہے ہیں، کیونکہ موت کا وقت تو معین ھے، لیکن کیا جعلی ادویات سے،ملاوٹ اور ناجائز منافع خوری سے مرنا بھی معین ھے؟ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے!!! ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :