آنے والا دسمبر، حلوہ اور اپوزیشن

جمعرات 11 نومبر 2021

 Qaiser Thethia

قیصر ٹھیٹھیہ

حلوے کی کڑاہی جوش مار رہی تھی،بھینی بھینی خوشبوکچن میں پھیل رہی تھی، گڑ،سوجی اور گھی آگ کی تپش کے بعد آپس میں الوداعی ملاقات کرتے ہوئے ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے اور روتے ہوئے سال کے آخری  مہینے دسمبر کو کوس رہے تھے۔موسموں کے لحاظ سے دسمبرٹھنڈا اور آخری مہینہ ہے۔اس کا نمبر بارواں منحوس ہے یا نہیں لیکن اس کی ترتیب دیکھو تو 1  2ایک سے دو نمبروں کا مجموعہ ہے اس لیے اسے نا تو ایک نمبر کہہ سکتے ہیں اور نا ہی دو نمبر۔

سائنس دان اس مہینے سے جڑی سائنس اور تاریخ دان اس سے جڑی تاریخ بتا سکتے ہیں کہ کتنی تحریکیں اس ٹھنڈ میں کامیاب ہوئیں۔ کتنی ناکام؟
ہم حلوے پر رہنا چاہتے ہیں کیونکہ ٹھنڈ میں حلوہ ہی بہترین سوغات ہے۔ٹھنڈ سے ٹھنڈہ ٹھار،گلے خراب اور گلے شکوے کرنے کا موسم دسمبر،جرابوں اور بوٹوں کا موسم۔

(جاری ہے)

(یہاں بوٹوں سے مراد بوٹ ہی لیے جائیں)۔چھتری کا موسم، یہ الگ بات کہ کون کس کی چھتری تلے گھسنا چاہتا ہے یا چھتری کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔


دسمبر کا حلوہ ٹھنڈہ ہونے تک ذرا اس خبر کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ ہماری نظر حلوے پر ہی رہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن کی زیرِ صدارت پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوا۔
مسلم لیگ نون کے قائد و سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف، نون لیگ کے صدر و اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، نون لیگی رہنما مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، دیگر جماعتوں کے رہنما جہانزیب جمالدینی، طاہر بزنجو، شاہ اویس نورانی، میر کبیر پی ڈی ایم کے ورچوئل اجلاس میں شریک ہوئے۔


دسمبر میں احتجاج کرنے کا پلان بنایا گیا۔سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی احتجاج کی تجویز دی گئی۔
خبر میں حلوے کا تذکرہ نہیں کیا گیا،موجودہ اپوزیشن میں موجود جماعتوں کو گڑ والا اقتداری حلوہ بہت پسند رہا ہے، ان میں سے ہر جماعت نا صر ف حلوہ کھا چکی بلکہ کڑاہی تک کو چاٹ چکی ہے۔
 لیکن موجودہ حکومت کے دور میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ان کے اتحادیوں نے بہت زیادتی کی۔

پیپلز پارٹی نے ایک بار ان کے حلوے میں نمک ڈال دیا تھا تا کہ جے یو آئی نمک حلال رہے۔ جبکہ ن لیگ ان کے حلوے میں بار ہا ریت ڈال چکی۔ دونوں بار حلوہ کھانے کے قابل نہیں رہا۔حالانکہ مولانا فضل الرحمن نے کڑاہی کے نیچے آگ بھی خوب جلائی تھی۔
سردی کے موسم میں لوٹے کا استعمال بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو پیپلزپارٹی اور ن لیگ سردی اور گرمی دونوں میں استعمال کر چکے ہیں۔


بلوچستان میں آئی وزیراعلی کی تبدیلی سے محمود خان اچکزئی سمیت اپوزیشن کا کوئی لیڈر بھی فائدہ نا اٹھا سکا۔اسلام آباد میں کافی کا موسم ہے۔ گڑ والی چائے کی چاہت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یخ بستہ سردی سے پہلے پہلے موسمیاتی گیزر تبدیل کیے جا رہے ہیں تاکہ گرم پانی میں سوچیں اور خواب جم نا جائیں۔
سردی میں الرجی اور دمے کے سیاسی مریض لاہور شفٹ ہو جاتے ہیں اور پھر رات کے اندھیروں میں کمر سیدھی کرنے ایک آدھ دن کے لیے آ جاتے ہیں۔

ویسے آجکل شہباز شریف کی کمر کو خاصا افاقہ ہے۔
چوہدری نثار پنڈی اور اسلام آباد کے موسم پر نظر رکھنے کے لیے ہمیشہ اسی بارڈر پر رہتے ہیں۔ کم بولے جانے اور راز کو راز رکھنے کی وجہ سے جو بھی موسم ہو  انہیں سیاسی نزلہ زکام نہیں ہوتا اور نا ہی انہیں اپوزیشن والی خشک کھانسی آتی ہے۔ حلوے اور جلوے کے اس دسمبر میں شاید وہ بھی کچھ بول پڑیں۔


نامور کالم نگارسہیل وڑائچ  اپنے ایک پرانے کالم مرحومہ پی ڈی ایم میں لکھتے ہیں۔پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نامی سیاسی اتحاد کی وفات حسرت آیات پر، اس کی بالی عمر یعنی صرف چھ ماہ میں مرحوم ہونے پر افسوس اور رنج و غم کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔پی ڈی ایم نامی اتحاد بنا تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں نے اس مشترکہ دستاویز پر دستخط کئے جس میں تحریک عدم اعتماد اور اجتماعی استعفوں دونوں کا ذکر تھا بعد ازاں دونوں جماعتوں نے اس بنیادی مشترکہ دستاویز کی اپنی اپنی تشریح پیش کی۔

استعفی دے کر سیاسی ذہانت کا اظہار نہیں کیا تاہم دونوں پارٹیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔دسمبر کے حلوے،اپوزیشن کی نئی حکمت عملی، حکومتی ٹیموں کی خامیوں، بیوروکریسی کی چالوں، اسٹیبلشمنٹ کے نئے نہلوں اور دہلوں پر پڑتی ٹھنڈی ٹھار دھند میں دھواں کھاتے خانساماں نے مجھے آواز دی مولوی صاحب حلوہ ٹھنڈا ہو رہا ہے میں ہنسا کہ حلوہ بھی کبھی ٹھنڈا ہوتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :