سی پیک اکنامک کور یڈور سے خوشحالی کا سفر…!

ہفتہ 22 دسمبر 2018

Rana AIJAZ HUSSAIN Chauhan

رانا اعجاز حسین چوہان

 قدرت الٰہی کا انعام ہے کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہ پر واقع ہے کہ کئی دوسرے ممالک کو تجارتی راستے مہیا کر سکتا ہے، جبکہ برادر دوست ملک چین کے تعاون سے جاری پاک چائنہ اقتصادی کوریڈور منصوبے کی تکمیل سے پاکستان نہ صرف اقتصادی طور پر مضبوط اور خوشحال ہوگا بلکہ یہ کوریڈور پاکستان کی مضبوط دفاعی لائن بھی ہو گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری صرف پاکستا ن کے لئے ہی نہیں بلکہ بہت سے ممالک کیلئے خوشحالی کا پیش خیمہ ہے۔

عالمی ماہرین اقتصادیا ت کے اندازے کے مطابق اس منصوبے سے چین ، جنوبی ایشیا ء اور وسط ایشیا ء کے تقریباً تین ارب افراد کو فائدہ پہنچے گا۔ جبکہ پاکستان اور چین کے درمیان اس منصوبے کی بدولت مخصوص تجارتی رہداریوں کی تعمیر سے بر اعظم ایشیا ء کی تقریباً نصف آباد ی اس منصوبے کے مثبت اثرات سے فیض یاب ہوگی۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے دیکھا جائے تو اکنامک کوریڈور کا معاہدہ پاکستان اور چین کے اقتصادی تعاون کی تاریخ کا سب سے زیادہ اہم معاہدہ ہے، اس منصوبے کے آغاز کے بعداب پاکستان کی معاشی خوشحالی کی منزل زیادہ دور نہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری ایک ایسا ترقیاتی پروگرام ہے جس کے تحت جنوبی پاکستان میں واقع گوادر کی بندرگاہ کو ہائی ویز، ریلوے اور پائپ لائنوں کے ذریعے چین کے جنو ب مغربی علاقے شن جیانگ سے مربوط کیا جا رہاہے۔چین اور پاکستان کی اعلیٰ قیادتیں اس منصوبے کی تکمیل میں ذاتی دلچسپی لے رہی ہیں اس لئے اس منصوبہ پر تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔اس منصوبے کی تکمیل کے بعد چین، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے مابین ہونے والی تجارت پاکستان کے راستے سے ہونے لگے گی اور اکنامک کوریڈور ان ممالک کی تجارت کیلئے مرکزی دروازے کی حیثیت اختیار کر لے گا۔

بالخصوص مڈل ایسٹ سے برآمد ہونے والا تیل گوادر کی بندر گاہ پر اترنے لگے گا کیونکہ گوادر کی بندرگاہ خلیج فارس کے دھانے پر واقع ہے۔ جبکہ اس تیل کی ترسیل پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے راستے سے چین کو ممکن ہوسکے گی۔ اس طرح پاکستان کو وسائل روزگار کے حصول کے علاوہ عالمی راہداری کے طور پر خطیر زرمبادلہ کا مستقل موقع بھی میسر آئے گا۔عالمی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سی پیک اکنامک کوریڈور منصوبے سے ایشیاء میں علاقائی تجارت و سرمایہ کاری کے بند دروازے کھلیں گے اور اطراف میں واقع تمام ممالک کو معاشی ثمرات حاصل ہونگے اور یوں دنیا کی سب سے بڑی منڈی وجود میںآ ئے گی جو علاقائی استحکام اور خوشحالی کی بنیاد ثابت ہوگی۔

پاکستان اپنی سرحدوں کو کاشغر کی مصنوعات کیلئے مختصر ترین رسائی اور عبوری راہداری کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے، اس ضمن میں کراچی پورٹ قاسم کی بندرگاہ کے علاوہ گوادر پورٹ ایک اضافی دروازہ ہوگی۔یہ امر مزید خوش آئند ہے کہ چین ، اپنے مغربی علاقے میں ”کاشغر سپیشل اکنامک زون “ تشکیل دے رہا ہے جو چین کو مغربی جانب سے وسطی ایشیاء کے ساتھ اور جنوب میں جنوبی ایشیاء کے ساتھ بھی جوڑ دے گا۔

چین نے گوادر میں متعدد میگا پراجیکٹس تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے جو دونوں ممالک کیلئے انتہا ئی فائدہ مندثابت ہونگے۔ چین ، گوادر کو پاکستان، ایران، وسطی ایشیا کی ریاستوں اور خود چین کیلئے ایک مرکزی بندرگاہ بنانے کا خواہا ں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے گوادر کی جلد آباد کاری کیلئے مختلف پراجیکٹس کا منصوبہ بنا رکھا ہے ، ان پراجیکٹس میں کوئلے،سورج اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے متعدد منصوبے بھی شامل ہیں۔

پاکستان کو گوادر پورٹ کے عمل میںآ نے سے کثیر وسائل روزگار کے علاوہ اربوں ڈالر کی آمد ن حاصل ہوگی۔
چین ، گوادر میں شنگھائی فری ٹریڈ زون کے ماڈل کو دہرانا چاہتا ہے، چین نے اپنی اقتصادی اور سماجی اصلاحات کو آزمانے کیلئے ابتدا میں چین کے اندر بھی سب سے پہلے شنگھائی فری ٹریڈ زون کا تجربہ کیا جو کہ چین کی اقتصادی ترقی کیلئے بے حد کامیاب ثابت ہوا۔

شنگھائی فری ٹریڈ زون میں مختلف صنعتی و تجارتی شعبوں کیلئے متعدد رعائتیں اور سہولتیں فراہم کی گئی تھیں، بیرونی سرمایہ کاروں کووہاں تین ماہ کے اندر پندرہ فیصد سرمایہ لگانے کی شرط سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گوادر کے فری ٹریڈ زون میں بھی بیرونی سرمایہ کاروں کوایسی ہی رعائتیں فراہم کی جائیں گی،جن سے گوادر بیرونی سرمایہ کار ی کا گڑھ بن جائے گا۔

توقع ہے کہ سپیشل اکنامک زون، فری ٹریڈ زون اور ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کی تشکیل کے بعد گوادر میں پاکستان کی ہنر مند اور غیر ہنر مند افرادی قوت کیلئے لاتعداد وسائل روزگار پیدا ہونگے جس سے یہاں عوام کے طرز زندگی میں نمایاں بہتری آئے گی۔ ایک منصوبے کے تحت اس ضمن میں مقامی لوگوں کو پیشہ وارانہ تربیت اور ارزاں قرضے بھی فراہم کئے جائیں گے تاکہ صوبے میں چھوٹے کاروباروں کا ایک ایسا جال بچھ سکے جو بڑی صنعتوں کیلئے وینڈر انڈسٹری کا کردار انجا م دے سکے۔

پاکستان سے چین کے سفر کے خواہاں افراد کے لیے کچھ عرصہ قبل تک ہوائی سفر ہی واحد ذریعہ تھا تاہم اب زمینی راستہ بھی ایک آپشن بن گیا ہے، اور نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کمپنی کے تحت چلنے والی بس سروس نے پاکستان کے شہر لاہور کو چین کے تاریخی شہر کاشغر سے جوڑ دیا ہے۔جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری سے ملکی ترقی کا یہ منصوبہ شروع ہی سے پاکستان کے دشمنوں کی آنکھ میں اٹک رہا ہے، ملک دشمن عناصر اس منصوبے کے خلاف گہری چالوں میں مصروف ہیں۔

مقام شکر ہے کہ چائنہ اور پاکستان کی سول و فوجی قیادت ان سب حالات سے مکمل باخبر ہے ۔ دوسر ی جانب برادر دوست ملک چین نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے عالمی تناظر میں رونما ہونے والی کسی بھی تبدیلی کے باوجود چین پاکستان کے سا تھ روائتی دوستی کو قائم رکھتے ہوئے اپنے تمام معاہدوں پر پورا اترے گا۔ اسی طرح پاکستان بھی چین کے ساتھ دوستی کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون سمجھتا ہے۔

اس سلسلے میں گزشتہ دنوں چین کے معاون وزیر خارجہ کونگ زوآن یو نے اسلام آباد میں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے ملاقات کی جس میں مختلف معاملات پر تبادلہ خیال کے علاوہ اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ پاک چین مثالی تعلقات سدا بہار اور باہمی اعتماد کا مظہر ہیں۔ایس کے علاوہ دونوں ممالک کی جانب سے سی پیک کو توسیع دینے اور جاری منصوبہ جات جلد مکمل کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

بلاشبہ یہی وہ اہم نکتہ ہے جو امریکہ کو پاکستان کے ساتھ کھل کر دشمنی کی راہ پر لایا ہے اور پاکستان چین اتحاد کمزورکرنے کے لیے امریکہ اس خطے میں بھارت کو تھانیداری دینا چاہتا ہے، جبکہ بھارت شروع دن سے ہی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے درپے ہے۔ لیکن پاکستان اورچین باہمی تعاون سے ان سازشوں کا توڑ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور 2021ء تک سی پیک کے آپریشنل ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ اسکے بعد جہاں پاکستان اور چین کیلئے اقتصادی ترقی کے راستے کھلیں گے وہیں علاقائی امن و سلامتی کی فضا بھی مستحکم ہوگی۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :