حساب کون دے گا ؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
(جاری ہے)
سوال تو یہ ہے کہ ریاست معاملات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بروقت فیصلے کیوں نہیں کرتی یاہمیں لاشے اٹھانے کا شوق ہے؟ رعونت اور انانیت ہمیں ذاتی مفادات سے ہٹ کر کچھ سوچنے ہی نہیں دیتی یہی وجہ ہے کہ جو طاقتور ہوتا ہے وپالیتا ہے اور غریب عدالتوں کی پیشیاں بھگت بھگت کر مر جاتا ہے ۔تبھی تو ماہر نفسیات انتھونی سٹیونزنے کہا تھا کہ جنگیں پارلیمینٹ یا فوجی ہیڈ کواٹرز میں نہیں بلکہ انسانی ذہنوں سے شروع ہوتی ہے یعنی کسی کے خلاف جنگ لڑنے کا محرک انسان کے اندر موجود ہوتا ہے اور اسے تحریک تب ملتی ہے جب اسے باور کروایاجائے کہ اولاً اس کی حق تلفی ہو رہی ہے اوردوئم یہ کہ اس کیساتھ ہونے والی نا انصافی پر کوئی بھی پشیمان نہیں ہے لہذا اپنے حق کو چھیننے کے لیے وہ جو بھی کرے گا وہ جائز اور برحق ہوگا پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس جذبے کی بالیدگی بنی نوع انسان کے لیے واقعی خطرناک ہے ؟تو اس کا جواب بھی ہمیں نسلی ارتقا کے ماہرین سے ملتا ہے کہ جنسیت کی طرح جارحیت بھی ہر نوع کی بقا کے لیے ناگزیر ہے ۔جارحیت وہ خوبی ہے جو انسان میں دھونس بازی اور آگے بڑھنے کی تحریک اجاگر کرتی ہے اسی جارحانہ رویے کی وجہ سے انسان طاقتور کو ہرا کر خوش ہوتا ہے جس کا آغاز سکول میں نمبر ون پوزیشن کے حصول سے ہو جاتا ہے پھر زیست کی پر پیچ پگڈنڈیوں پر دوڑتے بھاگتے معاشی حصول ، رہائش اور زندگی کے آسائش و آرام کے لیے کی جانے والی تگ و دو اسی تحریک کی بدولت ہوتی ہے ۔دور مت جائیں اس کی مثال بھکاریوں سے مل جاتی ہے کہ انھوں نے بھی اپنے لیے علاقے مختص کر رکھے ہیں کہ ہرنئے آنے والے بھکاری کو اپنی جگہ بنانے کے لیے ہمت دکھانا پڑتی ہے ۔یہی برتری اور غالب آنے کی خواہش ایک عام فرد کو رہنما بنا تی ہے ۔یعنی ثابت ہوا کہ جارحیت چھوٹے گروہ کا بڑے گروہ کے خلاف ایسا ردعمل ہے جو طاقت کے توازن میں کمی کی صورت میں احساس محرومی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے جس میں مذکورہ شخص خود کو یا دوسروں کو لاشعوری طور پر نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ اسکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے اور اگر اس کی بات نہ سنی جائے تو وہ تخریب کاری اور بد تہذیبی پر اتر آتا ہے اور یوں ایک مظلوم ایک ظالم بن جاتا ہے جو اپنے انتقام کی آگ میں خود بھی اور دوسروں کو بھی جلا دیتا ہے ۔پاکستان میں بحرانوں کے پیچھے ایسے ہی عوامل کارفرما ہوتے ہیں بایں وجہ حل سڑکوں پر ہونے لگا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس وقت جو ملک کا حال ہے کہ مہنگائی ،بے روزگاری اور لوٹ مار نے جینا دوبھر کر رکھا ہے کہ ہر دل کے اندر آگ لگی ہے کیونکہ عوامی ریلیف کے لیے کوئی دھرنا دینے ۔آواز اٹھانے اور سنجیدہ اقدام کرنے کو تیار نہیں تو ایسے میں جو لاوا پک رہا ہے وہ بہہ نکلا تو کیا ہوگا ؟باقی یہ تو سچ ہے کہ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کی تدابیر کر لی ہیں اور تحریک لبیک نے اپنی بقاء کو یقینی بنا لیا ہے مگر وہ جو تمام ناحق شہید کئے گئے ہیں ان کا حساب کون دے گا ؟جہاں تک اعلیٰ عدلیہ کا فرض ہے ان پر یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ ان پر ازخود نوٹس لیں اور پاکستانی مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے ہی پاکستانی مسلمانوں کو شہید کرنے والوں اور ذمہ داران کے خلاف اپنی اسی عہدہ داری اور اسی زندگی میں جلد سے جلد انصاف کو یقینی بنائیں کہیں ایسا نہ ہو یہ سب ذمہ داران بھی اس دنیا سے یا اپنے اپنے منصب سے فارغ ہو کر چلے جائیں اور سپریم کورٹ پھر ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے لیے سرگرم عمل ہو جائے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رقیہ غزل کے کالمز
-
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ ایک لمحہ فکریہ
جمعرات 17 فروری 2022
-
وزیر اعظم اپنے مشیر تبدیل کریں !
جمعہ 21 جنوری 2022
-
تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ کب ابھرے گی ؟
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
انقلاب برپا کرنے والی مہم
پیر 13 دسمبر 2021
-
آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی عمر
بدھ 1 دسمبر 2021
-
حساب کون دے گا ؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
سیاستدانوں باز آجاؤ !
جمعرات 21 اکتوبر 2021
رقیہ غزل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.