اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مذاکرات میں شریک ہوں گے، طالبان

DW ڈی ڈبلیو پیر 24 جون 2024 21:00

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مذاکرات میں شریک ہوں گے، طالبان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جون 2024ء) افغانستان میں حکمران طالبان آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کے اعلی حکام اور پچیس ممالک کے خصوصی نمائندوں کے قطر میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اجلاس میں افغان خواتین کی عدم شرکت پر تنقیدکی ہے۔ یہ قطر کے شہر دوحہ میں اقوام متحدہ کی سربراہی میں ہونے والا تیسرا اجلاس ہوگا مگر اس اجلاس میں طالبان پہلی مرتبہ شرکت کریں گے۔

سال 2021ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ طالبان سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ بین الاقوامی نقطہ نظر تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ طالبان حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین کے حقوق کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

'اقوام متحدہ کی ساکھ خطرے میں‘

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تیرانا حسن نے دوحہ میں ہونے والے اس تیسرے اجلاس کے بارے میں کہا کہ افغان خواتین کو اجلاس سے باہر رکھ کر طالبان کی زیادتیوں کو جائز قرار دیا جائے گا اور اس سے اقوام متحدہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

اقوام متحدہ کے سیاسی امور کی سربراہ روس میری ڈی کارلو، افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب روزا اوتون بائیوا اور مختلف ممالک کے سفرا طالبان سے ملاقات کے بعد افغان سول سوسائٹی گروپوں سے مشاورت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ افغان خواتین اور سول سوسائٹی دوحہ میں ہونے والے اجلاس کا ایک اہم حصہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کو تمام بحثوں میں نمایا طور پر پیش کیا جائے گا۔

اعتماد کی کمی

طالبان نے انسانی حقوق کی دیگر پامالیوں کے ساتھ ساتھ دیگر کارروائیوں کے علاوہ خواتین کے خلاف جبر وزیادتی کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ زیادہ تر افغان لڑکیوں اور خواتین کو ہائی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے سے روک دیا گیا ہے۔

طالبان نے زیادہ تر افغان خواتین عملے کو کی ملازمت کرنے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے ان پابندیوں کے تحت امدادی اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو بھی کام سے روکا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں بیوٹی پالرز بند کر دیے گئے ہیں۔

یہاں تک کہ خواتین کو عوامی پارکوں میں داخلے سے روک دیا گیا ہے اور مرد سرپرست کی غیر موجودگی میں خواتین کے سفر پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں اسلامی شریعت کا مکمل نفاز کرنا چاہتے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل ایگنس کیلامارڈ نے دوحہ میں طے شدہ اجلاس کے بارے میں کہا، ''انسانی حقوق پر اہم بات چیت کو نظر انداز کرنا نا قابل قبول ہوگا اور اس کے نہایت ہی سنگین تنائج ہو سکتے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب روزا اوتون بائیوا نے کہا کہ دوحہ اجلاس میں نجی شعبے کے کاروبار اور انسداد منشیات پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے گزشتہ سال مئی میں افغانستان کے ان حالات کے متعلق مختلف ممالک کے نمائندوں کو طلب کیا تھا تاکہ طالبان حکام سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ نقطہ نظر پر کام کیا جا سکے۔ تاہم اس اجلاس میں طالبان کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔

اس کے بعد طالبان نے فروری میں دوحہ میں ہونے والے دوسرے اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ طالبان چاہتے تھے کہ انہیں افغانستان کے واحد سرکاری نمائندے کے طورپر تسلیم کیا جائے اور تمام مسائل پر اقوام متحدہ اعلیٰ سطح پر ان کے ساتھ بات چیت کرے۔ مگر اقوام متحدہ کی جانب سے ان کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

زع/ ش ر (روئٹرز)