امریکہ سے معاہدے کے بعد وکی لیکس کے بانی جولین اسانج رہا

DW ڈی ڈبلیو منگل 25 جون 2024 12:00

امریکہ سے معاہدے کے بعد وکی لیکس کے بانی جولین اسانج رہا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جون 2024ء) فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جولین اسانج کی اہلیہ اسٹیلا اسانج نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، "جولین آزاد ہو گئے ہیں!" انہوں نے تصدیق کی کہ وہ جنوب مشرقی لندن کی بیلمارش ہائی سکیورٹی جیل سے رہا ہو گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی رہائی کے لیے عالمی دباؤ کی حمایت کرنے والے ہر شخص کا "الفاظ میں شکریہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔

"

جولین اسانج کی رہائی کے لیے آسٹریلوی پارلیمان میں قرارداد منظور

'جولیان اسانج کا مقدمہ آزادی صحافت کو خطرے میں ڈال رہا ہے'

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو عراق اور افغانستان میں امریکہ کی مبینہ فوجی غلطیوں کو منظر عام پر لانے کی وجہ سے دنیا بھر میں بہت سے لوگوں نے ایک ہیرو کے طورپر پیش کیا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن امریکہ کا استدلال ہے کہ وکی لیکس کی فائلوں، جن میں عراق اور افغانستان کی جنگوں کے بارے میں معلومات ظاہر کی گئی تھیں، نے بہت سی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا۔

امریکہ نے باون سالہ اسانج پر غلط طریقے سے قومی دفاعی معلومات حاصل کرنے اور اسے ظاہر کرنے کی سازش کا الزام لگایا تھا۔ اسانج پچھلے پانچ سالوں سے برطانوی جیل میں تھے۔

جولیان اسانج کی امریکہ حوالگی کا معاملہ، آگے کیا ہو سکتا ہے؟

امریکی محکمہ انصاف کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد انہیں برطانوی جیل سے رہا کردیا گیا ہے اور وہ امریکہ کی جانب رواں ہیں جہاں معاہدے کے تحت وہ اپنے خلاف الزامات کا اعتراف کریں گے۔

اعتراف جرم کے بدلے انہیں آزاد کردیا جائے گا۔ اس طرح ان کے خلاف ایک طویل عرصے سے جاری قانونی لڑائی کا اختتام ہو جائے گا۔

دریں اثنا آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانی نے منگل کے روز ملکی پارلیمان سے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اسانج جلد از جلد آسٹریلیا اپنے گھر واپس آجائیں۔

انہوں نے کہا،"اسانج کے متعلق لوگوں کے خیالات اور ان کی سرگرمیوں سے قطع نظر، یہ کیس بہت طویل عرصے تک چلتا رہا، اس کے جاری رہنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ قید سے آزاد ہونے کے بعد انہیں جلد از جلد آسٹریلیا واپس لایا جائے۔"

کیا معاہدہ ہوا ہے؟

امریکی محکمہ انصاف نے عدالت میں جمع کرائے گئے ایک خط میں بتایا ہے کہ جولین اسانج امریکہ کے جاسوسی ایکٹ کے الزام میں جرم کا اعتراف کریں گے کہ وہ غیر قانونی طور پر قومی دفاع کی خفیہ معلومات حاصل کرنے اور پھیلانے کی سازش میں ملوث تھے۔

امریکی نظامِ انصاف کے مطابق مجرمانہ درخواست کی جج سے منظوری ضروری ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق توقع ہے کہ اسانج کو پانچ سال قید کی سزا سنائی جائے گی جو وہ پہلے ہی ایک سخت سیکیورٹی والی برطانوی جیل میں گزار چکے ہیں۔

اپریل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ اسانج کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کے لیے آسٹریلیا کی درخواست پر غور کر رہے ہیں۔

اس سے اگلے مہینے برطانوی ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اسانج امریکہ کو حوالگی کے خلاف نئی اپیل دائر کرسکتے ہیں، جس میں وہ امریکی یقین دہانیوں کو چیلنج کرسکتے ہیں کہ ان کے ممکنہ مقدمے کی سماعت کیسے کی جائے گی اور آیا اس سے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہوگی؟

اسے اسانج کی فتح قرار دیا گیا تھا اور ان کی اہلیہ اسٹیلا نے کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کو "خود کو اس شرمناک عدالتی کارروائی سے دور رکھنا چاہئے۔

"

خیال رہے کہ اسانج اور ان کے وکلاء کا طویل عرصے سے یہ دعویٰ ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ سیاسی اغراض پر مبنی ہے۔اسانج کو ریپ کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے جس سے ان کی ساکھ داغدار ہوئی۔ تاہم وہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)