دنیا میں خوراک اور پانی پر بڑی جنگوں کے خدشات بڑھنے لگے

غذائی اشیا کے نرخوں میں عالمی سطح پر اضافے کا عمل کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے دوران شروع ہوا ،رپورٹ

جمعرات 27 جون 2024 17:22

سنگاپور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جون2024ء) دنیا میں خوراک اور پانی پر بڑی جنگوں کے خدشات بڑھ رہے ہیں، یہ بات زرعی اجناس اور مصنوعات کی تجارت کرنے والی بین الاقوامی کمپنی اولم ایگری کی طرف سے جاری رپورٹ میں کہی گئی۔ روسی ٹی وی کے مطابق سنگا پور میں قائم 60 سے زیادہ ممالک میں بزنس کرنے والی کمپنی اولم ایگری کے چیف ایگزیکٹو سنی ورگیس نے کہا کہ دنیا نے ماضی میں تیل پر کئی جنگیں لڑی ہیں اب ہم خوراک اور پانی پر بڑی جنگیں لڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں پائی جانے والے جغرافیائی سیاسی تنائو نے رسد میں کمی کے خدشات کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں حکومتوں کی طرف سے خوراک کیمقامی ذخائر میں اضافے کی غرض سے عائد کی جانے والی تجارتی رکاوٹوں نے اشیائے خوردونوش کی افراط زر کو بڑھا دیا ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق غذائی اشیا کے نرخوں میں عالمی سطح پر اضافے کا عمل کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے دوران شروع ہوا جس میں یوکرین جنگ اور روس کے خلاف مغربی ممالک کی پابندیوں کے نتیجے میں تیزی آئی ۔

ان پابندیوں کے نتیجے میں اناج اور کھادوں کی کچھ برآمدات روک دی گئیں ،غریب ممالک میں غذائی عدم تحفظ میں شدت آئی اور ضروریات زندگی پر اخراجات بڑھنے کے بحران میں شدت پیدا ہوئی،اس صورتحال میں زرعی اجناس کی تجارت کرنے والے بڑے اداروں نے 2022 میں ریکارڈ منافع کمایا ۔سنی ورگیس نے نشاندہی کی کہ غذائی اشیا کے نرخوں میں اضافے کی ایک وجہ غذائی اجناس اور اشیا کی تجارت میں مختلف ممالک کی حکومتوں کی مداخلت بھی تھی کیونکہ امیر ممالک نے اجناس کے سٹریٹجک ذخائر کے حجم کو بڑھانا شروع کر دیا اور اس سے طلب اور رسد میں عدم توازن پیدا ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے دو ممالک بھارت اور چین کے پاس غذائی اشیا کا بفر سٹاک موجود ہے۔ سنی ورگیس نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں نے بھی عالمی سطح پر زرعی پیداوار کو متاثر کیا ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں غذائی تحفظ پسندی کو عروج حاصل ہو ا ، اس حوالے سے بھارت اور انڈونیشیا کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انڈونیشا نے مقامی مارکیٹ کے تحفظ کے لیے 2022 میں پام آئل کی برآمدات پر پابندی عائد کر دی تھی ، اسی طرح بھارت نے مقامی طور پر چاول کے نرخوں میں اضافے کو روکنے کے لئے گزشتہ سال چاول کی مخصوص اقسام پر برآمدی پابندیاں عائد کر دی تھی، مستقبل قریب میں مختلف ممالک کی طرف سے اس سے بھی سخت اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے اس صورتحال سے بچنے کے لئے ماحولیا تی تبدیلیوں کے زرعی پیداوار پر منفی اثرات کو روکنے کے لئے موثر اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک بھی قبل ازیں خبر دار کر چکے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کی کوششوں میں عدم دلچسپی کی وجہ سے دنیا ایک تباہ کن مستقبل کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں دسیوں ملین افراد قحط کے خطرے سے دوچار ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ شدید موسمی واقعات فصلوں، مویشیوں اور ماحولیاتی نظام پر نمایاں منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں جس سے عالمی خوراک کی دستیابی کے بارے میں مزید خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔