ضیافتوں کی تاریخ

DW ڈی ڈبلیو اتوار 30 جون 2024 17:00

ضیافتوں کی تاریخ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جون 2024ء) ابتداء ہی سے آپس میں مِل بیٹھ کر کھانے کا رواج رہا ہے۔ ایتھنز میں جب عالم اور دانشور مِلتے تھے تو اُن کی یہ محفل سمپوزیم کہلاتی تھی۔ اس میں پانی میں شراب مِلا کر پی جاتی تھی۔ سادہ کھانا کھایا جاتا تھا اور رات بھر فلسفے کے موضوعات پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔ صبح سویرے سب اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے۔

ایتھنز میں عام دِنوں میں بھی لوگ سادہ کھانا کھاتے تھے۔ کھانے میں مچھلی، زیتون کا تیل اور پنیر شامل ہوتے تھے۔ سادہ کھانے کی وجہ سے اُمراء اور عوام لوگوں کے درمیان زیادہ فرق نہیں تھا۔

رومی سلطنت میں اس کی ابتداء میں سبزی کا سُوپ ہوتا تھا۔ گوشت بہت کم مقدار میں کھایا جاتا تھا لیکن جب رومی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا، مال غنیمت آیا، دوسری قوموں کے پکوان سے واقفیت ہوئی تو رومی امراء کے کھانے ہینے کے انداز بدل گئے۔

(جاری ہے)

ان کی حویلیوں میں ایک کمرہ دعوتوں کے لیے مخصوص تھا۔ یہاں پر مہمان نیم دراز ہو کر کھانا کھاتے تھے۔ جب کھانا ہاتھوں سے کھایا جاتا تھا۔ اس لیے غلام مسلسل پانی سے اُن کی ہاتھ دھلواتے رہتے تھے۔ اُمراء دعوتوں میں انواع و اقسام کے کھانے تیار کرواتے تھے۔ تا کہ اُن کی شہرت ہو اور کوئی دوسرا اُن کا مقابلہ نہ کر سکے۔ ان دعوتوں میں علمی موضوعات پر بہت کم بحث ہوتی تھی۔

مہمانوں کی دلچسپی کھانوں کی تعریف میں ہوتی تھی جو میزبانوں کو خوش کرتی تھی۔

رومی سلطنت کے بعد عہدِ وسطیٰ میں فیوڈل ازم کا دور آیا۔ یہ فیوڈل لارڈز آزاد ہوتے تھے۔ ان کی اپنی زمینیں تھیں، فوج تھی اور ان کے نائب (Vassals) ہوتے تھے۔ یہ سب ایک ہال میں مِل کر کھانا کھاتے تھے۔ ہال میں ایک پلیٹ فارم ہوتا تھا، جس پر فیوڈل لارڈ اور اُس کا خاندان بیٹھتا تھا۔

نیچے لمبی میز کے دونوں جانب اس کے ماتحت بیٹھتے تھے۔ کھانا ایک بڑے اور گہرے برتن میں رکھ دیا جاتا تھا۔ چونکہ اب تک کانٹے چمچوں کا رواج نہیں ہوا تھا۔ اس لیے لوگ کھانے کے برتن میں ہاتھ ڈال کر گوشت نکالتے تھے، اور اُسے چھُری سے کاٹ کر کھاتے تھے۔ ہڈیاں میز کے نیچے پھینک دیتے تھے۔ جو کتّوں کی خوراک بنتی تھیں۔ کیونکہ ہاتھ صاف کرنے کے لیے کوئی رومال نہیں ہوتا تھا اس لیے وہ اسے اپنی پتلون سے صاف کر لیتے تھے۔

نشاة ثانیہ کے عہد تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر کھانے کے آداب پر کتابیں لکھی گئیٔں، جس کی وجہ سے دعوتوں میں صفائی کا خاص خیال رکھا جانے لگا۔

دعوتوں کا ایک سلسلہ وہ ہوتا تھا جس میں عام لوگوں کو شریک کیا جاتا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ دعوت دینے والا اپنی ضیافت اور سخاوت کی وجہ سے مقبول ہو۔

مُغل دور میں ابوالفضل نے آئین اکبری میں کھانے کی تفصیل دی ہے۔

خاص طور سے روٹیوں کی مختلف قِسمیں، گوشت کے مختلف پکوان جن میں چاول مختلف طریقوں سے پکائے گئے تھے۔ انواع و اقسام کے مصالحے استعمال ہوئے لیکن سرخ مرچ کا ابھی استعمال نہیں ہوا تھا۔

ایک اور دعوت کا ذِکر اطالوی سیاہ مانریکے نے کیا ہے۔ یہ لاہور میں آصف خان نے شاہجہاں کو دی تھی۔ دعوت کا بڑا اہتمام کیا گیا تھا۔ آصف خان کی حویلی تک جانے کے لیے تمام راستے پر قالین بچھائےگئے تھے۔

دیواروں کو خوشنما پردوں سے سجایا گیا تھا۔ قِسم قِسم کے پکوان پکوائے گئے تھے۔ کسی منصب دار کے لیے یہ اعزازکی بات تھی کہ شہنشاہ نے اُس کی دعوت قبول کی۔ اس نے آصف خان کے درجے کو درباریوں کی نظر میں اور بڑھا دیا۔

دعوتوں کا یہ سلسلہ ہندوستان میں جاری رہا۔ خاص طور سے والیانِ ریاست جو انگریزوں کے آنے کے بعد اُن کی حفاظت میں آ گئی تھی۔

اس لیے اُن کی ساری توجہ تفریحات کی طرف تھی۔ خاص طور سے لَکھنؤ کے تعلق دار جن کی زمینوں سے لگان آ جاتا تھا۔ وہ اس آمدنی کو مشاعروں اور دعوتوں میں خرچ کرتے تھے۔ عبدالحلیم شرر نے لَکھنؤ کے تمدّن پر جو کتاب لکھی ہے۔ اس میں اُمراء کی دعوتوں اور نادر قِسم کے پکوانوں کا ذِکر ہے۔ دعوتوں کے مقابلے میں ہر تعلق دار کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ مہمانوں کو ایسے پکوان کھلائے، جو دوسرا تیار نہ کر سکے۔

جب والیانِ ریاست گورنر جنرل یا وائسرائے کی دعوت دیتے تھے تو ہندوستانی کھانوں کے ساتھ انگریزی پکوان بھی پکوائے جاتے تھے۔ لہٰذا یہ دعوتیں سماجی اور سیاسی روابط کو مضبوط کرتیں تھیں۔

لیکن دعوتیں ہمیشہ سیاسی روابط کے لیے ہی نہیں ہوتیں تھیں۔ ان کے ذریعے میزبان اپنے دشمنوں یا مخالفوں کا خاتمہ بھی کرتا تھا۔ مثلاً ایران کے شہنشاہ نوشیرواں نے Mani کے پیروکاروں کو ایک دعوت میں بلایا اور پھر سب کو ایک ایک کر کے قتل کرا دیا۔

جب سفح نے امیہ خاندان کو شِکست دی تو اِس خوشی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جو کھانا کھایا گیا۔ اُس کا دسترخوان امیہ خاندان کی لاشوں پر بچھایا گیا۔ مُرشد آباد کے نواب علی وردی خان نے مرہٹوں سے ایک جنگ کے بعد اُن سے صلح کے لیے دعوت پر بلایا اور پھر ان سب کو دھوکے سے قتل کروا دیا گیا۔ یہ دعوت کا ایک دوسرا رُخ تھا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍