سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کسی ملازم کے واجبات نہیں ہیں جبکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن میں جولائی 2020 کے بعد سے دسمبر 2024 تک 5.1 ارب کے واجبات ہیں، سعید غنی

جمعہ 17 جنوری 2025 21:43

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کسی ملازم کے واجبات نہیں ہیں جبکہ کراچی ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 جنوری2025ء)وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ محکمہ بلدیات کے زیر انتظام محکموں میں زیادہ تر محکموں کے ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن کی ادائیگی کی جارہی ہے البتہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی کا معاملہ ہے۔ کے ایم سی میں سابق مئیر وسیم اختر نے ان ملازمین کے جو پیسے علیحدہ اکائونٹ میں جمع ہوتے تھے اس کو بھی خرچ کردیا تھا۔

سندھ حکومت اس وقت بھی کے ایم سے کو ماہانہ 1.2 ارب ہر ماہ ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی مد میں ادا کررہی ہے، جو سابق سٹی ناظم مصطفی کمال نے اپنے دور میں ایک بار500 ملین ادھار مانگے تھے۔ ڈسٹرکٹ ایسٹ میں سندھ سولڈ ویسٹ کے تحت جو چائنیز کمپنی کام کررہی تھی اس کا کنٹریکٹ دوبارہ اس لئے نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ ادائیگی کو ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں نہیں لینا چاہ رہی ہے۔

(جاری ہے)

قانونی چارجڈ پارکنگ کے علاوہ شہر میں جتنی بھی غیر قانونی پارکنگ ہیں اس کو خاتمہ کی ذمہ داری محکمہ بلدیات نہیں بلکہ پولیس و قانون نافذ کرنے والوں کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز سندھ اسمبلی میں مختلف ارکان کی جانب سے پوچھے گئے تحریری توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں کیا۔ ایم کیو ایم کے رکن عبدال وسیم کے توجہ دلائو نوٹس پر جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی میں مسائل موجود ہیں اور بہت سے ملازمین پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب کے ایم سی میں پینشن ریگولر مل رہی ہے اور پی ایف بھی ادا کردئے گئے ہیں البتہ واجبات کی مد میں 13 ارب روپے کے بقایاجات ہیں جبکہ جولائی 2017 تک کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات ادا کردئیے گئے ہیں اس کے بعد کے بقایا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایم سیز کے ملازمین کے بقایاجات 2023 تک کے ایم سی کو ادا کرنے چاہیے یہ ہمارا موقف ہے اس کے بعد کے بقایاجات ٹاؤنز کو ادا کرنے ہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ نئے ملازمین پر تو یہ ہوسکتا ہے کہ ان کو ٹائون ادا کرے لیکن پرانے پر نہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت آج بھی 1.2 ارب روپے ہر ماہ کے ایم سی کو تنخواہوں اور پینشن کی مد میں ادا کرتی ہے، جو کسی دور میں اس وقت کے سٹی ناظم مصطفی کمال نے ایک ماہ کے لئے 500 ملین ادھار مانگیں تھے اور یہ آج تک سندھ حکومت ادا کررہی ہے اور یہ رقم اب بڑھ کر 1.2 ارب روپے ماہانہ ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کے ایم سی کی مزید ڈیمانڈ پر سندھ حکومت نے 2.76 ارب روپے کے ایم سی کو لون کی مد میں دینے کی منظوری دے دی ہے، جبکہ اس وقت کے ایم سی کے اپنے ذرائع سے بھی ان کے ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر ادارے میں ملازمین کی تنخواہوں کا اکائونٹ الگ ہوتا ہے، لیکن سابقہ میئر وسیم اختر نے وہ پیسے کسی اور مد میں خرچ کردئیے تھے۔

سعید غنی نے کہا کہ اسی طرح کے ڈی اے میں ستمبر ن*2020 کے بعد کے ملازمین کے 3.8 ارب روپے کے واجبات ہیں۔ انہوں نے بھی سندھ حکومت کو 3 ارب روپے کی گرانٹ ہے لئے لکھا ہے۔ جبکہ ہم کے ڈی اے کو بھی ماہانہ 40 کروڑ روپے تنخواہوں اور پنشن کی مد میں سندھ حکومت دے رہی ہے۔ کے ڈی اے میں بھی تمام پینشنرز کو باقاعدگی سے پینشن مل رہی ہے۔ اسی طرح کابینہ نے حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے لئے گذشتہ روز کابینہ نے 500 ملین کی گرانٹ منظور کی ہے البتہ اس کے میکنزم کے لئے کابینہ کی سب کمیٹی بنائی گئی ہے تاکہ آئندہ اس طرح ملازمین۔

کے واجبات ادا کرنے میں مشکلات نہ ہوں۔ سعید غنی نے کہا کہ اس وقت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کسی ملازم کے واجبات نہیں ہیں جبکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن میں جولائی 2020 کے بعد سے دسمبر 2024 تک 5.1 ارب کے واجبات ہیں، جن میں سے ان کے کئی سرکاری اداروں پر 2.1 ارب ہے واجبات ہیں جس کی ری کنشیلیش کرلی گئی ہے، جبکہ واٹر بورڈ کا 2.5 ارب کا دعوہ ہے۔

اس کے علاوہ واٹر بورڈ کے وفاقی اداروں پر بھی 12.5 ارب روپے کا دعوہ ہے، جس کی ری کنشیلیشن کروائی جارہی ہے اور اس وقت واٹر بورڈ کے ریونیو بھی بہتر ہورہا ہے تو انشائ اللہ وہاں بھی ملازمین کے واجبات جلد ادا کردئیے جائیں گے۔ ایم کیو ایم کے رکن عامر صدیقی نے اپنے توجہ دلائو نوٹس میں کہا کہ ان کے حلقے بشمول جمشید ٹائون وغیرہ میں صفائی اور کچرہ نہیں اٹھایا جاتا۔

اس غفلت کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ بنوری ٹائون جہاں کئی غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم ہے اس کے پاس کچرہ کنڈی ہے اور وہاں کا یوسی چیئرمین کوئی کام نہیں کرتا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ صرف معزز ممبر نہیں بلکہ اس وقت ڈسٹرکٹ ایسٹ کے تمام ٹاؤنز میں سولڈ ویسٹ کے حوالے سے ایشو ہے، جس کی وجہ وہاں جو چائنیز کمپنی کو کنٹریکٹ دیا گیا تھا اس کے کنٹریکٹ کی معیاد پوری ہوگئی ہے اور ہم اس کا دوبارہ کنٹریکٹ بحال بھی کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ دیگر کا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو کمپنیاں کام کررہی ہیں جب ان سے معاہدہ ہوا تو وہ ڈالر میں ہوا تھا تاہم اب ہم۔نے تمام کے کنٹریکٹ پاکستانی روپوں منتقل کردئیے ہیں کیونکہ ڈالر سے ادائیگی مہنگی ہورہی تھی۔ سعید غنی نے کہا کہ مذکورہ چائنیز کمپنی اپنے معاہدے کو پاکستانی روپے کی بجائے ڈالر میں رکھنے کی خواہ ہے جبکہ باقی مانندہ تمام نے پاکستانی روپے میں ادائیگی کو مان لیا ہے۔

اس سلسلے میں سولڈ ویسٹ جلد ہی نیا کنٹریکٹ کسی دوسری کمپنی کو دے دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی ڈور ٹو ڈور کچرا اٹھانے والا کام شروع نہیں ہوا ہے، جبکہ جو ملازمین سولڈ ویسٹ سے ٹائونز کو منتقل کئے گئے ہیں وہ دراصل مستقل ملازمین ہیں اور چونکہ اب کچڑہ اٹھانے یا صفائی کا کام ٹائونز کا نہیں بلکہ سولڈ ویسٹ کا ہے اس لئے ہم۔نے ان ملازمین کو دیگر کاموں کی طرف بھیجا ہے جبکہ ان ملازمین میں سے کئی گھوسٹ ملازمین بھی تھے جنہوں نے اپنی جوائننگ ہی نہیں دی اور انہیں فارغ کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک گاربیج اسٹیشن تعمیر نہیں ہوجاتے، شہر سے کچرہ کنڈیوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور جس کچرہ کنڈی کی معزز ممبر نے نشاندہی کی ہے اس کو اگر کسی کے گھر کے پاس یا رہائشی علاقے میں شفٹ کرتے ہیں تو کوئی ایسا کرنے نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ معزز ممبر عامر صدیقی نے نومبر میں سولڈ ویسٹ کو تعریفی خط لکھا ہے، اگر اس وقت اچھا کام۔

ہورہا تھا تو وہ اس کا بھی ذکر کرتے تو بہتر ہوتا۔ ایم کیو ایم کے رکن محمد معاذ کے توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ غیر قانونی چارجڈ پارکنگ کی جانب معزز رکن نے جو نشاندہی کی ہے میں نہیں کہوں گا کہ وہ غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں کے ایم سی اور کچھ ٹائونز کی چارجڈ پارکنگ موجود ہیں، جس پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جارہا ہے البتہ غیرقانونی پارکنگ کسی ٹائون یا کی ایم سی کے اختیار میں نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے تعینات کردہ مقامات کے علاوہ اگر کہیں پارکنگ ہے تو وہ قانون کے خلاف ہے۔ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور یہ کارروائی کا اختیار لوکل گورنمنٹ نہیں بلکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کا ہے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔