سینیٹ کمیٹی کا اجلاس، اربوں روپے کے سولر پینل سکینڈل میں نئے انکشافات سامنے آگئے

کمپنیوں نے 160ارب کی ٹرانزیکشنز کیں، سکینڈل میں 11کمپنیاں ملوث تھیں، ایف بی آر نے کیوں نہیں پکڑا ،سینیٹر محسن عزیز

منگل 28 جنوری 2025 05:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 جنوری2025ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ نے سولر پینل کی امپورٹ میں اربوں کی کرپشن اسکینڈل پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرانزیکشن کی حد 2کروڑ روپے سالانہ تھی تو ایک سال میں ایک ایک کمپنی نے 2سے 5ارب کی ٹرانزیکشن کیسے کرلیں ،ایف بی آر کہاں تھا ۔پیر کو سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔

اجلاس میں سولر پینل کی امپورٹ میں اربوں روپے کا کرپشن اسکینڈل زیر بحث آیا۔کنونیئر کمیٹی محسن عزیز نے سوال اٹھایا کہ بتائیں کہ ایک 2کمپنیوں نے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کیسے کرلی ،کیا ٹرانزیکشنز کنٹری آف اوریجن یا کنٹری آف شپمنٹ میں کی گئیں اگر کہیں اور ٹرانزیکشنز کی گئیں تو کیوں کی گئیں ۔

(جاری ہے)

سینیٹر محسن عزیز نے پوچھا کہ سولر کیلئے ایک پارٹی کیلئے ٹرانزیکشن کی حد 2کروڑ روپے سالانہ تھی،پھر ایک سال میں ایک ایک کمپنی نے 2سے 5ارب کی ٹرانزیکشن کیسے کرلیں ،ایف بی آر نے کہاں اور کس مشکوک ٹرانزیکشن کو پکڑا ، سولر پینل میں کمپنیوں نے 160 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز کیں، اس سولر پینل سکینڈل میں 11کمپنیاں ملوث تھیں، 11میں سے پشاور کی سٹار بزنس اور مون لائٹ مرکزی ملوث کمپنیاں ہیں۔

نجی اسلامک بینک نے اجلاس کو بتایا کہ ان کمپنیوں کے اکائونٹ بادامی باغ لاہور برانچ میں کھولے گئے، برائٹ سٹار کی جانب سے رب نواز اور اہلیہ زینب نواز نے اکائونٹ اوپن کرایا،مون لائٹ کمپنی کا اکاونٹ زاہد اکبر نے اوپن کرایا تھا،برائٹ اسٹار نے 3اگست 2018ء کو اکائونٹ کھلوایا اور تیسرے دن بزنس شروع کردیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بتائیں اس کمپنی نے کس سال میں کتنی ٹرانزیکشنز کیں ۔

بینک حکام نے بتایا کہ 2018ء میں برائٹ سٹار نے 2.7ارب، 2019 میں 5ارب کی ٹرانزیکشن کیں، 2020 میں 1.5ارب، 2021 ء میں 3اور 2022ء میں 2.5ارب کی ٹرانزیکشن ہوئیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک ہی دن میں 2ملین سے زائد کی ٹرانزیکشن نہیں کی جاسکتیں، پھر کمپنی نے ایک ہی روز میں کئی ملین کی ٹرانزیکشن کیسے کیں ۔بینک حکام نے کہا کہ 2ملین سے زائد کی ٹرانزیکشن پر سی ٹی آر ایف ایم یو کو بھیج دیتے ہیں۔حکام ایف ایم یو نے کہا کہ ہمارے پاس سی ٹی آر آتی ہیں ہم چیک کرتے ہیں کہ وہ مشکوک تو نہیں، سی ٹی آر آنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ مشکوک ہوتی ہیں، کوئی مشکوک ٹرانزیکشن ہو تو ہم اس پر ایس ٹی آر بناکر آگے بھیج دیتے ہیں،ایس ٹی آر پر کمپنیوں کے خلاف انفورسمنٹ ایجنسیز کارروائی کرتی ہیں۔