اسماعیلی مسلمانوں کے رہنما آغا خان انتقال کر گئے

DW ڈی ڈبلیو بدھ 5 فروری 2025 12:20

اسماعیلی مسلمانوں کے رہنما آغا خان انتقال کر گئے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 فروری 2025ء) آغا خان ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن نے منگل کے روز اعلان کیا کہ مسلمانوں میں اسماعیلی فرقے کے امام کریم آغا خان 88 سال کی عمر میں لزبن میں "پرسکون" طور پر انتقال کر گئے۔

آغا خان فاؤنڈیشن نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ "عزت مآب پرنس کریم الحسینی، آغا خان چہارم، شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کے 49ویں موروثی امام اور پیغمبر اسلام کی براہ راست اولادوں میں سے ایک، چار فروری 2025 کو 88 سال کی عمر میں لزبن میں پرسکون طور پر انتقال کر گئے۔

پرنس صدرالدین آغا خان کا زمرد ریکارڈ نو ملین ڈالر میں نیلام

ان کے ادارے نے یہ بھی کہا کہ "ان کے نامزد جانشین کا اعلان بھی جلد ہی کر دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

"

کریم آغا خان کون تھے؟

کریم آغا خان کے پیروکار انہیں پیغمبر اسلام کی براہ راست اولادوں میں سے سمجھتے تھے۔ آغا خان 20 سال کی عمر ہی اس وقت اسماعیلی مسلمانوں کے فرقے کے روحانی پیشوا بن گئے، جب ان کے والد کا انتقال ہوا اور اس وقت وہ ہارورڈ میں انڈرگریجویٹ کے طالب علم تھے۔

برطانوی شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ کی پاکستان میں مصروفیات

آغا خان فاؤنڈیشن نے ترقی پذیر ممالک میں گھروں، ہسپتالوں اور اسکولوں کی تعمیر میں اربوں ڈالر کی رقم خرچ کی ہے۔

ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت، خاص طور پر وسطی اور جنوبی ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں اسماعیلی کمیونٹی کی تعداد تقریباً 12 سے 15 ملین ہے۔

اس میں سے پاکستان میں تقریبا پانچ لاکھ افراد رہتے ہیں، جبکہ بھارت، افغانستان اور افریقہ میں بھی ان کی بڑی آبادی ہے۔ یہ شیعہ اسلام کی ایک شاخ ہے۔

ارب پتی روحانی رہنما

فوربس میگزین کے مطابق، سن 2008 میں پرنس آغا خان کی دولت اندازاﹰ ایک ارب امریکی ڈالر سے زیادہ تھی، جو انہیں وراثت میں ملی تھی۔ اس دولت کو بعد میں انہوں نے گھوڑوں کی افزائش سمیت متعدد کاروباری مفادات سے فروغ دیا۔

وہ برطانیہ، فرانس اور آئرلینڈ میں ریس کے گھوڑوں کے ایک سرکردہ مالک تھے اور انہوں نے شیرگر کی نسل کے گھوڑوں کی افزائش بھی کی، جو کبھی دنیا کا سب سے مشہور اور قیمتی گھوڑا ہوا کرتا تھا۔

آغا خان تعمیراتی انعام برلن کے ایک پروفیسر کے لئے بھی

آغا خان کے پاس برطانوی اور پرتگالی شہریت بھی تھی اور اسماعیلی قیادت پرتگالی دارالحکومت لزبن میں رہتی ہے، جہاں وہ ایک اہم کمیونٹی بھی ہے۔

اسماعیلی مسلمانوں کے روحانی سربراہ کے طور پر کردار ادا کرنے کے باوجود بھی وہ مشرق وسطیٰ کے تنازعات، مذہبی بنیاد پرستی یا سنی شیعہ کشیدگی کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرتے تھے۔

پرنس آغا خان سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے تھے اور وہ فرانس کے ایک عالی شان محل میں بھی کافی دنوں تک رہے۔ انہوں نے بہاماس میں ایک نجی جزیرے، ایک سپر یاٹ اور ایک نجی جیٹ کے ساتھ ایک شاہانہ طرز زندگی گزاری۔

آغا خان کے خیراتی اداروں نے ترقی پذیر دنیا میں سینکڑوں ہسپتال، تعلیمی اور ثقافتی منصوبے چلائے۔

وہ برطانوی بادشاہ پرنس چارلس اور ان کی والدہ ملکہ الزبتھ کے بھی دوست تھے۔

موت پر رد عمل

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے آغا خان کی وفات پر روحانی پیشوا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس خبر پر "انتہائی غمزدہ" ہیں۔

انہوں نے آغا خان کو "ہماری پریشان حال دنیا میں امن، رواداری اور ہمدردی کی علامت" کے طور پر بیان کیا۔

نوبل امن انعام یافتہ اور تعلیم کی مہم چلانے والی ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ آغا خان کی میراث "دنیا بھر میں تعلیم، صحت اور ترقی کے لیے ان کی قیادت کے ناقابل یقین کام کے ذریعے زندہ رہے گی۔"

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)