موسمیاتی تبدیلی کیخلاف جنگ اکیلے نہیں لڑی جا سکتی، احسن اقبال

جمعرات 6 فروری 2025 15:53

موسمیاتی تبدیلی کیخلاف جنگ اکیلے نہیں لڑی جا سکتی، احسن اقبال
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 فروری2025ء)وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے جس کے خلاف جنگ اکیلے نہیں لڑی جاسکتی۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اس عالمی مسئلے پر آواز اٹھانے، اپنے اخبار میں خصوصی سپلیمنٹ شائع کرنے اور اس کانفرنس کے انعقاد پر ڈان میڈیا گروپ اور ان کے شراکت داروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

انہوںنے کہاکہ اس کانفرنس میں دنیا بھر کے ماہرین ایک اہم عالمی مسئلے موسمیاتی تبدیلی کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں، یہ وقت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم اقدامات کرنے کا ہے۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا اہم مسئلہ ہے، کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود پاکستان کو اس تبدیلی کے سنگین نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔انہوں نے 2022 کے سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2 سال قبل ہمارے ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب کے سبب ڈوب گیا تھا، 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو بے گھر ہونا پڑا، 1700 افراد کی جانیں گئیں، 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی بڑ اخطرہ ہے، جب کہ ہمارے ملک کا ایک اور بڑا مسئلہ اسموگ کا ہے، خراب ایئر کوالٹی کے سبب لوگوں کی سحت اثر انداز ہو رہی ہے۔

آخر میں احسن اقبال نے اس امر پر زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کی یہ لڑائی اکیلے نہیں لڑ سکتے اس میں مزید ممالک کے تعاون کی بھی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ اینڈ ہیومینٹیرین کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ نے کہا کہ اس خطے سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے خطے کو کیا نقصانات بھگتنا پڑ رہے ہیں، غیر معمولی گرمی، شدید بارشیں، سیلاب، خشک سالی اور موسمی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

انہوں نے 2022 کے سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2022 میں پاکستان نے ایک سنگین سیلاب کا سامنا کیا، اس سیلاب کی وجہ سے 30 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا نقصان اٹھانا پڑا۔انہوںنے کہاکہ 2022 کے سیلاب میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا تھا، جو پوری دنیا کے الیے الارمنگ کال ہے، تاہم کاربن کے اخراج کا سلسلہ جاری ہے۔محمد یحییٰ نے کہا کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے، دنیا کے 20 امیر ترین ممالک کا کاربن کے اخراج میں 80 فیصد حصہ ہے۔

انہوںنے کہاکہ اس خطے کے دیگر ممالک خاص طور پر پاکستان کا کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود وہ متاثرہ ترین ممالک میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اکثر موسمیاتی ناانصافیوں کے حوالے سے سنتے ہیں لیکن اس ملک کی کئی کمیونٹیز اس حقیقت کا سامنا کر رہی ہیں۔اقوام متحدہ کے نمائندے نے ’کوپ29‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کو 30 ارب دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، تاہم ماضی کی وعدہ خلافیوں کے بعد ہم دیکھیں گے کہ اس مرتبہ کیا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے لیے ایک معقول بجٹ کا تقاضا کرتے ہیں، ماحولیاتی آلودگی بھی اب ختم ہونی چاہیے، ہمیں موسمیاتی فنانس کا مطالبہ کرنا چاہیے جو معقول، قابل رسائی، مناسب اور منصفانہ ہو۔انہوںنے کہاکہ کارپوریٹ اور قومی استثنیٰ کا دور بھی ختم ہونا چاہیے، ہمارے سیکریٹری جنرل نے آلودگی پھیلانے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس حل کا حصہ بننے کے لیے مزید اقدامات کریں۔

عالمی بینک میں موسمیاتی تبدیلی کی عالمی ڈائریکٹر ویلری ہکی نے کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ مرجائیں گے، اگر ہم اس بات کا انتظار کریں گے کہ گلوبل نارتھ کی جانب سیوہ تمام رقم رکھی جائے، جو انہیں اخلاقی طور پر دینی چاہیے۔پیرس معاہدے کے تحت ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی پر این سی کیو جی کے ساتھ آنے میں بہت خوش ہیں۔

انہوںنے کہاکہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 100 ارب ڈالر سے 300 ارب ڈالر تک منتقل ہونے ہیں، یہ بہت خطیر رقم لگتی ہے، تاہم ایسا نہیں ہے، اس کا زیادہ تر حصہ قرض پر مشتمل ہے، یہ گرانٹ نہیں ہے، اس میں سے زیادہ تر پہلے سے ہی موجود ہے، یہ اضافی نہیں ہے۔ویلری ہکی نے کہا کہ میں تجویز کرتی ہوں کہ اس کانفرنس کا نام ’بریتھ پاکستان‘ سے تبدیل کر کے ’لیڈ پاکستان‘ کیا جائے۔

تقریب سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے خیبر پختونخوا کے حوالے سے دہشت گردی کے بارے میں ضرور سنا ہوگا، لیکن آج میں یہاں اپنے صوبے اور ہمارے لوگوں کی جانب سے ملک کے لیے دی جانے والی خدمات کو پیش کرنے کے لیے آیا ہوں۔انہوں نے کہا کہ کے پی کی 37 فیصد زمین جنگلات پر مشتمل ہے، اور یہ پاکستان کے جنگلات کا 40 سے 45 فیصد ہے، کاربن سنک کے طور پر پاکستان سے 50 فیصد کاربن نکال رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یو این ڈی پی اور ورلڈ بینک کی تحقیق کے مطابق اتنے جنگلات کے لیے ہمیں سالانہ کم از کم 332 ارب روپے درکار ہیں، میں اتنا پیسہ لگانے کے قابل نہیں ہوں، لیکن کم از کم میرا صوبہ اور میرے لوگ اتنی بڑی رقم کا کام کرنے کے قابل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لیڈرعمران خان نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کی حمایت کی ہے، 2017 سے اب تک ہم نے اپنے جنگلات کے رقبے کو بہتر بنانے اور بڑھانے کے لیے خیبر پختونخوا میں 67 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے ہیں اس حوالے سے بین الاقوامی معیار 25 فیصد ہے لیکن (خیبر پختونخوا) اب 26 فیصد خرچ پر ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہم نے بین الاقوامی معیارات حاصل کر لیے ہیں، اور اس سے بالاتر ہیں۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ جہاں تک پاکستان کی پائیداری اور ہماری مجموعی معاشی صورتحال کا تعلق ہے، تو اس کا انحصار 2 مسائل اور اس بات پر ہوگا کہ ہم ان سے کیسے نمٹتے ہیں۔انہوں نے دونوں مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ایک آبادی پر قابو پانا اور آبادی کا انتظام ہے، جب کہ بدقسمتی سے ہم اب بھی 2.5 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ ہم کیا اور کیوں جانتے ہیں، اس حوالے سے پالیسیز کی کمی نہیں ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ اس پر عمل در آمد کیسے اور کون کریگا۔انہوںنے کہاکہ اگرچہ ہمیں ان مسائل کو حل کرنے اور ان سے نمٹنے کی ضرورت ہے، تاہم اصل اور سب سے بڑا مسئلہ موسمیاتی موافقت ہے۔ماحولیات کی فنانسنگ کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کوپ 29 میں کسی حد تک اس حوالے سے اقدامات کیے گئے ہیں، جس میں کم از کم 72 کروڑ ڈالر کے نقصان کے ازالے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ طویل غور و خوض کے بعد باکو فنانس کا ہدف تقریباً 300 ارب ڈالر سالانہ اخراجات کے حوالے سے ہے۔انہوں نے گزشتہ سال باکو میں منعقد ہونے والی کوپ 29 میں طے کیے گئے فنڈز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جتنی رقم مختص کی گئی، ضرورت اس سے 3، 4 گنا زیادہ رقم کی تھی۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سابق گورنر شمشاد اختر نے کلائمیٹ فنانس کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا جنون رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز کے لیے 2050 تک سالانہ 40 سے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں جب تک ہم عالمی برادری اور عالمی منظرنامے کو درپیش اس مہلک خطرے سے نہیں نمٹیں گے، ہم کہیں بھی نہیں جا پائیں گے، اور ہمیں معاشی خلل کا سامنا کرنا پڑے گا۔اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر سلیم رضا نے اپنے خطاب میں بتایا کہ کس طرح اخراج کی حد کی وجہ سے بہت سی کمپنیاں اس میں کمی کے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اور اگر یہ کمپنیاں اس پر قابو پالیتی ہیں، تو انہیں جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، یا وہ کسی ایسے شخص سے کریڈٹ خریدتے ہیں، جو اس خلا کے نیچے ہے، اور یہ کاربن ٹریڈنگ مارکیٹ ہے۔اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر سلیم رضا نے کہا کہ میں ایک واحد حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ توقع ہے کہ نجی سرمایہ کاری اور صرف نجی سرمایہ کاری، سرکاری سرمایہ کاری ہرگز نہیں، کیوں کہ یہ پہلے ہی بوجھ تلے دبی ہے۔

اس کے بعد انہوں نے اسکرین پر ایک تخمینہ دکھایا کہ آج کے مقابلے میں اگلے 5 سال میں نجی سرمایہ کاری میں کتنا اضافہ ہونا ہے، یہ بیرونی فنانس میں 15 سے 18 گنا اور اندرون ملک جمع کی گئی رقم میں 5 سے 7 گنا تک ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کمپلائنس ٹریڈنگ مارکیٹ تقریباً 800 ارب ڈالر ہے، یہ سب نجی سرگرمی ہے، یہ کمپلائنس مارکیٹ ہے۔سلیم رضا نے کہا کہ رضاکارانہ ٹریڈنگ مارکیٹ ہے، جو ایک باقاعدہ مارکیٹ نہیں ہے، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو کاربن کریڈٹ خریدنا چاہتے ہیں، تاکہ جب وہ اپنے ممالک سے باہر جاتے ہیں تو اپنی اضافی رقم کو پورا کریں۔

انہوںنے کہاکہ دنیا کا ایک بڑا حصہ ان ضروریات کا احاطہ کرتا ہے، تمام یورپی یونین، کینیڈا، چین، جاپان، نیوزی لینڈ، امریکا کے کچھ حصے (کیلیفورنیا، شمال مشرقی امریکا کی 11 ریاستیں) سبھی میں کیپ اور تجارت کا یہ نظام موجود ہے۔