فلسطینیوں کے ’رضاکارانہ انخلا‘ کا منصوبہ تیار کرنے کا حکم

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 6 فروری 2025 20:20

فلسطینیوں کے ’رضاکارانہ انخلا‘ کا منصوبہ تیار کرنے کا حکم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تجویز کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس میں انہوں نے غزہ پٹی کے تقریباً دو ملین فلسطینیوں کی عرب ممالک میں 'آباد کاری‘ کی بات کی ہے۔

تاہم اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ملکی فوج کو حکم دے دیا ہے کہ وہ غزہ پٹی سے فلسطنیوں کے ''رضاکارانہ انخلا‘‘ کو ممکن بنانے کی خاطر ایک جامع منصوبہ ترتیب دے۔

کاٹز نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ وہ صدر ٹرمپ کے اس ''دلیرانہ منصوبے‘‘ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ انہوں نے مزید لکھا کہ غزہ کے رہائشیوں کو آزادی کے ساتھ مہاجرت کی اجازت ہونا چاہیے، جیسا کہ یہ دنیا کا ایک دستور ہے۔

(جاری ہے)

اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت فلسطینیوں کو زمینی، بحری اور فضائی راستوں سے انخلا کے آپشن فراہم کیے جائیں گے۔

اسرائیلی ریاست اپنی ناکامی چھپانا چاہتی ہے، حماس کا الزام

فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے عہدیدار باسم نعیم نے اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیلی ریاست کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ غزہ کی جنگ میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں مبینہ طور پر ناکام رہی ہے۔

فلسطینیوں کی نقل مکانی مشرق وسطیٰ کے انتہائی حساس اور متنازعہ موضوعات میں سے ایک ہے۔

فوجی قبضے کے تحت کسی علاقے سے مقامی آبادی کی جبری نقل مکانی سن 1949 کے جنیوا کنوینشن کے تحت نہ صرف ممنوع ہے بلکہ یہ عمل جنگی جرائم کے زمرے میں تصور کیا جاتا ہے۔

گزشتہ 16 ماہ کے دوران غزہ پٹی میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہزاروں فسطینی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ حماس کے جنگجوؤں کے خلاف اسرائیلی دفاعی افواج کی کارروائیوں کی وجہ سے فلسطینیوں کو بار بار بے گھری پر بھی مجبور ہونا پڑا۔

لیکن بہت سے فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پٹی کو کبھی نہیں چھوڑیں گے کیونکہ اس صورت میں انہیں مستقل نقل مکانی کا خوف رہے گا۔ جیسا کہ سن 1948 میں بھی ہوا تھا، جب اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت شروع ہونے والی جنگ میں لاکھوں فلسطینیوں کو گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

تب بہت سے لوگوں کو غزہ، مغربی کنارے، اردن، شام اور لبنان سمیت ہمسایہ عرب ریاستوں میں جلاوطن کر دیا گیا تھا، جہاں ان کی اولادیں اب بھی پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہی ہیں۔

تاہم اسرائیل انکار کرتا ہے کہ تب اُن فلسطینیوں کو زبردستی مہاجرت پر مجبور کیا گیا تھا۔

کاٹز نے مزید کہا کہ جن ممالک نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی مخالفت کی ہے، انہیں فلسطینیوں کو قبول کرنا چاہیے۔

دوسری طرف ہسپانوی وزیر خارجہ نے کاٹز کے اس بیان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا، ''غزہ کے رہنے والوں کی سر زمین غزہ ہے اور غزہ کو بھی مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہونا چاہیے۔

‘‘

یہ منصوبہ ٹرمپ کی فینٹسی ہے، ایہود باراک

اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پٹی میں رہنے والے تقریباً 20 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ بدر کرنے کی تجویز کو 'فینٹسی‘ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔

جمعرات کے روز اسرائیلی فوج کے ریڈیو سے بات کرتے ہوئے باراک نے کہا کہ ایسا نہیں لگتا کہ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے، جس پر کسی نے سنجیدگی سے غور کیا ہے۔

اسرائیل کے اس سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ شاید یہ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی حمایت کا ایک اشارہ ہے۔ باراک کے بقول ٹرمپ کا بیان عرب رہنماؤں پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش بھی ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ غزہ میں حماس کو حکومت کرنے سے کیسے روکا جائے؟ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کو مزید خطرہ نہ ہو؟ ''ہمارے لیے، یہ جائز اور اہم خدشات ہیں۔

‘‘

ٹرمپ کی تجویز شدید تنقید کی زد میں

ٹرمپ نے منگل کے دن غزہ کے بارے میں اپنے اس متنازعہ منصوبے کا اعلان کیا تھا، جس پر عالمی طاقتوں روس، چین اور جرمنی نے بھی تنقید کی تھی۔ ان ممالک کے مطابق اس منصوبے پر عمل درآمد سے 'نئے مصائب اور نئی نفرت‘ کو فروغ ملے گا۔

مصر اور دیگر عرب ممالک بھی فلسطینیوں کو سرحد پار دھکیلنے کی کسی بھی کوشش کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کسی بھی عوامیت پسندانہ تحریک سے 'دو ریاستی حل‘ کے امکانات کو مزید نقصان پہنچے گا۔

سعودی عرب نے بھی اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ نے بھی امریکی صدر کے اس منصوبے سے شدید اختلافات کا اظہار کیا ہے۔

یہ زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے، ایران

ایرانی وزارت خارجہ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ٹرمپ کا یہ منصوبہ فلسطینی عوام کو ''مکمل طور پر ختم کرنے کی اسرائیلی کوشش‘‘ کا ایک حصہ ہے۔

حماس نے صدر ٹرمپ کی اس تجویز کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ سمیت متعدد مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی دفاعی افواج کی کارروائیاں اسرائیلی سرزمین پر حماس کے دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں شروع کی گئی تھیں۔

سات اکتوبر سن 2023 کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل میں حملے کرتے ہوئے تقریباﹰ بارہ سو افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ڈھائی سو سے زیادہ افراد کو یرغمال بنا کر وہ اپنے ساتھ غزہ پٹی لے گئے تھے۔

غزہ میں حماس کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ سولہ ماہ سے اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کم ازکم بھی 47 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

امدادی کاموں میں تیزی

اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کارروائیوں کے سربراہ نے کہا ہے کہ 19 جنوری کو غزہ میں جنگ بندی کے بعد سے اب تک 10 ہزار سے زائد امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو چکے ہیں۔

ٹام فلیچر کا کہنا تھا، ''جنگ بندی کے بعد دو ہفتوں میں 10 ہزار سے زائد ٹرک امدادی سامان کے ساتھ غزہ پٹی کے علاقے میں داخل ہو چکے تھے۔‘‘

انہوں نے کہا، ''بہت سے لوگوں کا شکریہ، جنہوں نے ضروری سامان، زندگی بچانے والی ادویات، خوراک اور خیموں کی ترسیل ممکن بنائی۔‘‘

جنگ بندی کے نتیجے میں غزہ میں خوراک، ایندھن، طبی اور دیگر امداد کی ترسیل کی اجازت دی گئی ہے اور جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد اس فلسطینی علاقے کے شمال میں واپس جانے کے قابل ہو گئے ہیں۔

غزہ جنگ بندی کے 42 روزہ پہلے مرحلے کے دوران اب تک 18 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جا چکا ہے، جن کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں سے 600 فلسطینیقیدیوں کو بھی رہا کیا جا چکا ہے۔

ع ب/ ا ا، م م (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)