Live Updates

26 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ختم کر سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر

کسی ریگولر بینچ کے پاس آئینی تشریح کا اختیار نہیں، قوانین کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ صرف آئینی بینچ لے سکتا ہے؛ بینچز اختیارات کیس میں نوٹ جاری

Sajid Ali ساجد علی اتوار 9 فروری 2025 16:35

26 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ختم کر سکتا ہے، جسٹس ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 09 فروری 2025ء ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا ہے کہ 26 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ختم کر سکتا ہے، آرٹیکل 184 کے معاملات میں صرف آئینی بینچ سماعت کرسکتا ہے، کسی ریگولر بینچ کے پاس آئینی تشریح کا اختیار نہیں،قوانین کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ صرف آئینی بینچ لے سکتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق بینچز اختیارات کیس میں جسٹس محمد علی مظہر نے آئینی بینچ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے 20 صفحات پر مشتمل نوٹ جاری کر دیا، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ قوانین کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ صرف آئینی بینچ لے سکتا ہے، کسی ریگولر بینچ کے پاس آئینی تشریح کا اختیار نہیں، آئینی بینچ نے درست طور پر 2 رکنی بینچ کے حکمنامے واپس لیے کیوں کہ 26 ویں آئینی ترمیم اس وقت آئین کا حصہ ہے، ترمیم میں سب کچھ کھلی کتاب کی طرح واضح ہے، ہم اس ترمیم پر آنکھیں اور کان بند نہیں کر سکتے۔

(جاری ہے)

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ ترمیم چیلنج ہو چکی اور فریقین کو نوٹس بھی جاری ہو چکے، کیس فل کورٹ میں بھیجنے کی درخواست کا میرٹ پر فیصلہ ہوگا، 26 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ فیصلہ ہی ختم کر سکتا ہے، جب تک ایسا ہو نہیں جاتا معاملات اس ترمیم کے تحت ہی چلیں گے اور آئینی تشریح کم از کم 5 رکنی آئینی بینچ ہی کرسکتا ہے، کسی ریگولر بینچ کو وہ نہیں کرنا چاہئے جو اختیار موجودہ آئین اسے نہیں دیتا۔

سپریم کورٹ کے جج نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ ٹیکس کیس میں بنیادی حکمنامے واپس ہو چکے، بنیادی حکمناموں کے بعد کی ساری کارروائی بے وقعت ہے، آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار، آرٹیکل 185 (3) کے تحت اپیلیٹ دائرہ اختیار یا آرٹیکل 186 کے تحت مشاورتی دائرہ اختیار استعمال کرنے کا حق صرف آئینی بینچ کو حاصل ہے، میں قول و فعل میں تضاد کے بغیر واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ موجودہ حالات میں آئینی بینچ کے علاوہ اس عدالت کا کوئی بھی بینچ آرٹیکل 184، 185(3) اور آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار، اپیلیٹ دائرہ اختیار یا شکایتی دائرہ اختیار کا استعمال نہیں کر سکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ میرے خیال میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس وقت آئینی بینچ کے باہر اس دائرہ اختیار کا کوئی بھی استعمال خلاف ضابطہ ہوگا، آرٹیکل 191 اے (5) میں کہا گیا ہے کہ 26 ویں ترمیم کے نفاذ سے قبل سپریم کورٹ میں دیے گئے فیصلوں یا منظور کردہ یا زیر التوا یا دائر کردہ احکامات کے خلاف تمام درخواستیں، اپیلیں یا نظرثانی کی درخواستیں منتقل کردی جائیں گی اور صرف آئینی بینچ ہی ان کی سماعت اور فیصلہ کرے گا۔
Live 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق تازہ ترین معلومات