12فروری: پاکستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا دن

DW ڈی ڈبلیو منگل 11 فروری 2025 15:00

12فروری: پاکستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا دن

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 فروری 2025ء) سن 1983ء میں اسی دن لاہور میں خواتین نے جنرل ضیاء الحق کے حدود آرڈیننس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی، جس کے نتیجے میں انہیں ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ ماہرین کے مطابق خواتین کا قومی دن اور عورت مارچ جیسے ایونٹس شعور بیدار کرنے اور قانون سازی میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم مکمل مساوات اور انصاف کے لیے مزید جدوجہد ابھی باقی ہے۔

عورت مارچ: بیانیے کی جنگ یا حقوق کی جدوجہد؟

معروف صحافی عاصمہ شیرازی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عورت مارچ محض بیانیے کی جنگ نہیں بلکہ حقوق کی جدوجہد ہے، جو خواتین کے لیے مساوی حقوق، شناخت اور ان کی آواز کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آبادی میں تناسب کے باوجود خواتین کے حقوق بدستور سلب کیے جا رہے ہیں۔

’میرا جسم میری مرضی‘: خواتین کا عالمی دن متنازعہ

دنیا بھر میں تقریباﹰ تین کروڑ خواتین غلامی پر مجبور

’عورت کی شکتی سے مرد خائف ہیں‘

خواتین کے حقوق کی علمبردار فرزانہ باری کے مطابق خواتین کے حقوق کا بیانیہ انہیں مکمل خودمختاری دینے کا مطالبہ کرتا ہے، جو معاشی، سیاسی، سماجی اور دیگر شعبوں میں برابری کی ضمانت دیتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ محض نعرہ نہیں بلکہ ایک سماجی حقیقت ہے اور مساوات پر مبنی معاشرہ ہی خواتین کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کر سکتا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن زاہد عبداللہ کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کو الگ مسئلہ سمجھنے کے بجائے وسیع تر بیانیے کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ ان کے مطابق خواتین اور معذور افراد کے حقوق تبھی ممکن ہیں جب سماجی بیانیے میں مثبت تبدیلی آئے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ معاشرے میں موجود منفی رویے، لطیفے اور محاورے امتیازی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں، جنہیں چیلنج کرنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے حصول کے لیے بیانیے کی جنگ لڑنا ناگزیر ہے کیونکہ یہی حقیقی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔

ہیومن کیپٹل پاکستان کی سربراہ افشاں تحسین کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں خواتین کو مساوی حقوق اور مواقع میسر نہیں۔

وہ فیصلہ سازی، تعلیم، صحت، معاشی اور سیاسی ترقی میں برابر شمولیت سے محروم ہیں جبکہ لیبر فورس میں ان کی شرکت 20 فیصد سے بھی کم ہے۔ انہوں نے مردوں کو صنفی حساسیت کے عمل میں شامل کرنے پر زور دیا اور عورت مارچ کو متنازع بنانے پر افسوس کا اظہار کیا، جس سے خواتین کے حقوق کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔

کیا خواتین کی جدوجہد حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے؟

اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کے مطابق عورتوں کی جدوجہد نے معاشرتی شعور اور آگاہی میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خواتین پر تشدد، انہیں جلا کر مار دیے جانے اور آن لائن ہراسگی جیسے مسائل میں کمی آئی ہے لیکن یہ اب بھی جاری ہیں۔ شیرازی کا کہنا ہے کہ مختلف ادارے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنا رہے ہیں اور خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین اور ادارے موثر ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کے بقول ان مسائل پر کھل کر بات ہونا ہی ایک بڑی کامیابی ہے۔

سماجی کارکن باری کا کہنا تھا کہ جب تک معاشرتی رویے نہیں بدلیں گے اور ریاست خواتین کی تعلیم و ترقی پر سرمایہ کاری نہیں کرے گی، ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے عورت مارچ گروپوں کے کردار کو اہم قرار دیا مگر اس کے ساتھ ہی کہا کہ یہ مکمل حل فراہم نہیں کر سکتے۔ ان کے مطابق پاکستان کی 49 فیصد خواتین کی تعلیمی، سماجی اور معاشی ضروریات پوری کرنا ریاست اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

والدین کو بچیوں کو مساوی تعلیمی مواقع دینے چاہیں جبکہ خواتین کے مسائل کے حل کے لیے ریاست کو بھی عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

برابری کی علامت کے تین دن: 12 فروری، 8 مارچ، 22 دسمبر

پاکستان میں 12 فروری خواتین کا قومی دن 1983ء میں حدود آرڈیننس کے خلاف خواتین کے احتجاج کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ ان قوانین نے عصمت دری کے مقدمات میں خواتین کے لیے شدید ناانصافی پیدا کی۔

لاہور میں ہونے والے احتجاج پر پولیس نے تشدد کیا اور ان کارکنوں کی قربانیوں کے اعتراف میں 2011ء میں اسے باضابطہ قومی دن قرار دے دیا گیا۔

عورت مارچ مرکزی حیثیت

پاکستان میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس میں 2018ء سے شروع ہونے والا عورت مارچ مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مارچ خواتین پر تشدد، معاشی و تولیدی حقوق اور آزادی اظہار جیسے مسائل اجاگر کرتا ہے۔

قدامت پسندانہ مخالفت کے باوجود، یہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد اور مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ عاصمہ شیرازی کے مطابق عورت مارچ کے قریب آتے ہی مخالفت میں شدت آ جاتی ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ خواتین کے حقوق کی جدوجہد آج بھی چیلنجز سے دوچار ہے جنہیں سمجھنا اور حل کرنا ناگزیر ہے۔

فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد خواتین پر صرف گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالنا درست نہیں۔

مردوں کو بھی برابر کی ذمہ داری لینی چاہیے تاکہ حقیقی مساوات قائم ہو سکے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں 22 دسمبر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ آسیہ بی بی کیس اور جوزف کالونی واقعہ توہین مذہب قوانین کے غلط استعمال کی مثالیں ہیں۔ یہ دن اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور بیداری کے لیے اہم مواقع قرار دیے جاتے ہیں۔

انسانی حقوق کی ارتقا کو کیسے یقینی بنایا جائے؟

زاہد عبداللہ نے تاریخی تناظر میں بتایا کہ رومی تہذیب میں خواتین اور معذور افراد کے حقوق نہ ہونے کے برابر تھے لیکن مذاہب کی ارتقا کے ساتھ ان کے تحفظ کے اصول وضع کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کا ارتقا ایک مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ افشاں تحسین کے مطابق سماجی روایات قانون پر حاوی ہیں اور پدرشاہی سوچ تعلیم یافتہ طبقے میں بھی موجود ہے، جس کی وجہ سے خواتین مخصوص کرداروں تک محدود ہیں۔ وہ طویل جدوجہد کے باوجود مرکزی دھارے میں برابری حاصل نہیں کر پائی ہیں۔