اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 مارچ 2025ء) اسلام آباد میں قائم کیے جانے والے ’’پاکستانی زبانوں کے ادبی عجائب گھر‘‘ کو 74 زبانوں کے تحفظ اور ان کے ثقافتی ورثے کے فروغ کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ پاکستان کا لسانی تنوع اس کی ثقافتی شناخت کی بنیاد ہے مگر عالمگیریت اور آبادیاتی تبدیلیوں کے باعث یہاں کئی زبانیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
پاکستان کا پہلا لسانی میوزیم
یہ ادبی عجائب گھر پاکستان میں زبانوں کے تحفظ اور فروغ کی پہلی کاوش ہے، جہاں 74 زبانوں کی بنیادی معلومات، رسم الخط اور قدیم مخطوطات محفوظ کیے گئے ہیں۔ منتظمین کے مطابق مستقبل میں سمعی و بصری مواد اور انٹرایکٹیو سہولیات شامل کی جائیں گی تاکہ نوجوان نسل ان زبانوں کے لہجوں، موسیقی اور لوک کہانیوں سے آشنا ہو سکے۔
(جاری ہے)
اکادمی ادبیات پاکستان کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس ادبی عجائب گھر میں نایاب اور معدومیت کے خطرات سے دوچار زبانوں کو شامل کیا گیا ہے، جن میں چترال کی دو زبانوں پر خصوصی دستاویزی فلمیں بھی تیار کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق یہ میوزیم قومی شناخت کے استحکام میں معاون ثابت ہو گا، تاہم اس کے عملی اثرات کو مؤثر بنانے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’’یہ ایک منفرد پروجیکٹ ہے، جو ملک کے ثقافتی ورثے اور لسانی تنوع کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ تنوع ہماری طاقت ہے اور صدیوں پرانی تہذیب و فکری ارتقا کا ثبوت ہے۔‘‘ادبی شخصیت ڈاکٹر سعدیہ کمال نے بتایا کہ زبانیں اس وقت معدوم ہوتی ہیں، جب انہیں بولنے والا کوئی نہ رہے اور پاکستان میں اس وقت کئی زبانیں اس خطرے سے دوچار ہیں۔
ان کے بقول زبانوں کے تحفظ کی یہ کاوش نہ صرف ثقافتی ورثے کے تحفظ بلکہ آئندہ نسلوں تک اس کی منتقلی کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ماضی، حال اور مستقبل کا سنگم
وفاقی سیکرٹری حسن ناصر جامی نے پاکستانی زبانوں کے ادبی عجائب گھر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اس تہذیبی و ثقافتی ورثے کو ماضی، حال اور مستقبل کا سنگم قرار دیا۔ حسن ناصر کا کہنا تھا کہ ہر زبان قابلِ احترام ہے اور اس کا تحفظ ہماری قومی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے مادری زبانوں کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ حکومت کا قائم کردہ یہ عجائب گھر ملک کے لسانی و ثقافتی ورثے کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرے گا۔کیا پاکستان میں نئی زبانیں دریافت کی منتظر ہیں؟
یونیسکو کے عالمی لسانی اٹلس کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 8,324 زبانیں ریکارڈ کی گئی ہیں، جن میں بولی جانے والی اور اشاروں کی زبانیں شامل ہیں۔
ان میں سے تقریباً 7,000 زبانیں اب بھی بولی جاتی ہیں۔ تاہم دنیا بھر میں زبانوں کی تعداد وقت کے ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 70 سے زائد زبانیں بولی جاتی تھیں لیکن اب ان میں سے تقریباً 65 زبانیں باقی رہ گئی ہیں۔زبانوں کا ایک حسین ورثہ
ڈاکٹر نجیبہ کے مطابق پاکستان میں بولی جانے والی مختلف زبانیں اس کے غیرمعمولی لسانی تنوع کو ظاہر کرتی ہیں۔
ان میں کئی قدیم زبانیں شامل ہیں، جو صدیوں سے مقامی ثقافت اور تہذیب سے جڑی ہوئی ہیں۔ وقت کے ساتھ ان زبانوں میں تبدیلیاں آتی ہیں مگر ان کی بنیادیں خطے کی قدیم روایات میں مضبوطی سے پیوست رہتی ہیں۔پاکستان ایک کثیر لسانی ملک ہے، جہاں 70 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں پنجابی، پشتو، سندھی، سرائیکی، اردو، بلوچی، ہندکو، براہوی، میواتی اور کوہستانی شامل ہیں۔
تاہم گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اعداد و شمار شامل نہ ہونے کے باعث شینا اور بلتی زبانوں کی درست آبادی معلوم نہیں۔ تقریباً 60 زبانیں ایسی ہیں، جن کے بولنے والوں کی تعداد 10 لاکھ سے کم ہے۔اشاراتی زبان بھی قومی ورثہ!
ڈاکٹر سعدیہ کمال کے مطابق پاکستان جیسے متنوع ملک میں تمام زبانوں کا تحفظ ضروری ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا کی وہ زبانیں، جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
انہوں نے اشاراتی زبان کی شمولیت کو بھی اہم قرار دیا، جو وسیع سطح پر ابلاغ کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ان کے مطابق کچھ زبانیں بغیر تحریری رسم الخط کے تھیں لیکن اکادمی ادبیات نے انہیں محفوظ کرنے کا اہتمام کیا، جو نہ صرف زبانوں بلکہ ثقافتی ورثے اور قومی شناخت کے تحفظ کی ایک بڑی کوشش ہے۔ماضی کی میراث، مستقبل کا چیلنج
ڈاکٹر نجیبہ کے مطابق گندھارا اور وادی سندھ کی تہذیبوں کا مرکز یہ خطہ تاریخی و ثقافتی لحاظ سے انتہائی اہم ہے۔
قدیم زبانوں کا تحفظ تاریخی شناخت کے لیے ضروری ہے، تاہم جدید مواصلاتی ترقی سے ثقافتوں پر اثرات بڑھ رہے ہیں۔ تاریخ میں طاقتور اقوام کی زبانیں حاوی رہی ہیں جبکہ کمزور زبانیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ یہی رجحان آج بھی موجود ہے، جہاں طاقتور طبقات کی زبانوں کو فوقیت حاصل ہونے سے گہرے سماجی و ثقافتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق دشوار گزار علاقوں تک محدود ہونے کے باعث کئی پاکستانی زبانیں زوال کا شکار ہیں۔
جدید مواصلاتی ترقی اور بڑھتے روابط نے ان پر دیگر زبانوں کے اثرات مرتب کیے، جس سے ان کا تحفظ مشکل ہو گیا۔ نئی نسل ان زبانوں سے ناواقف ہوتی جا رہی ہے اور اب صرف معمر افراد ہی انہیں روانی سے بول سکتے ہیں۔زبانوں کی بقا کا راستہ
ڈاکٹر سعدیہ کمال کے مطابق یہ ایک اہم علمی و ادبی خدمت ہے مگر اس پر مزید کام کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زبانوں کو صرف تحریری نہیں بلکہ صوتی اور ڈیجیٹل شکل میں بھی محفوظ کرنا چاہیے تاکہ یہ ایک جامع معلوماتی ذخیرہ بن سکے۔ یہ منصوبہ پاکستان کی لسانی و ثقافتی تاریخ کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرے گا۔