اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اپریل 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی برسوں میں شہریوں پر ہونے والے بدترین حملے میں زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ کس طرح مسلح افراد نے جنگل سے نکل کر سیاحوں کو خود کار ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔
اس حملے میں 26 مرد ہلاک ہوئے، جس سے بھارت میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ نئی دہلی نے پڑوسی ملک پاکستان پر ''سرحد پار دہشت گردی‘‘ کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے، جبکہ پاکستان نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔
عینی شاہدین کیا کہتے ہیں؟
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عینی شاہدین کے بیانات اور بھارتی میڈیا رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک منظم حملہ تھا، جس کا مقصد نئی دہلی حکومت کو ایک ''سفاکانہ پیغام‘‘ دینا تھا۔
(جاری ہے)
مسلح افراد دیودار کے جنگلوں سے نکلے اور خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کر دی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق حملہ آوروں نے اپنے حملے کو ریکارڈ کرنے کے لیے باڈی کیمرے بھی لگا رکھے تھے۔
بھارتی پولیس نے حملہ آوروں کی شناخت دو پاکستانی شہریوں اور ایک بھارتی کے طور پر کی ہے لیکن ان دعووں کی فی الحال آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہو پائی۔حملہ آوروں نے مردوں کو عورتوں اور بچوں سے الگ کیا۔ ایک عینی شاہد نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے ''واضح طور پر عورتوں کو چھوڑ دیا اور مردوں پر فائرنگ جاری رکھی۔
‘‘ایک خاتون پلوی نے اکنامک ٹائمز کو بتایا کہ حملہ آوروں نے اس کے شوہر کو اس کے سامنے گولی مار دی۔ پلوی کے مطابق، جب اس نے حملہ آوروں سے اسے بھی مار دینے کے لیے کہا، تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اسے زندہ چھوڑ رہے ہیں تاکہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو پیغام پہنچائے۔ پلوی نے کہا، ''حملہ آوروں نے کہا، جاؤ، جا کر مودی کو بتاؤ۔
‘‘کچھ زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے لوگوں کے مذہب کے بارے میں بھی پوچھا اور ان سے کلمہ پڑھنے کا مطالبہ بھی کیا۔ مرنے والے ایک شخص کے کزن نے بتایا کہ حملہ آوروں نے اس کے کزن سے پوچھا کہ کیا وہ مسلمان ہے، پھر اس کے سر میں گولی مار دی لیکن اس کی بیوی کو چھوڑ دیا۔ زندہ بچ جانے والی شوبھم دویدی کے کزن نے انڈیا ٹوڈے کو مزید بتایا، ''انہوں نے بندوق تان کر کہا، اپنی حکومت کو بتا کہ ہم نے کیا کیا ہے۔
‘‘حکومتی اداروں پر تنقید
دیگر زندہ بچ جانے والوں نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ اگر ہنگامی ردعمل تیز ہوتا تو کچھ زخمیوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں، جو فوری طور پر ہلاک نہیں ہوئے تھے۔ شیتل کلاٹیا، جن کے شوہر بھی ہلاک ہو گئے، کا کہنا تھا، ''اس واقعے نے ہمیں توڑ دیا ہے۔‘‘
انہوں نے اخبار ہندوستان ٹائمز کو مزید بتایا، ''ہمیں سب سے زیادہ صدمہ اس بات پر ہوا کہ وہاں ایک بھی سکیورٹی اہلکار موجود نہیں تھا۔ اگر انہیں معلوم تھا کہ اس جگہ پر ایسے خطرات ہیں، تو انہیں کسی کو وہاں جانے کی اجازت ہی نہیں دینا چاہیے تھی۔‘‘
ادارت: مقبول ملک