اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 اپریل 2025ء) ایران اور امریکہ کے مابین مذاکرت کے اس نئے دور سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نیا معاہدہ طے پانے کے حوالے سے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ ایران کے ایٹمی ہتھیار بنانے کی راہ کو روکا جا سکے۔
مذاکرات کے آغاز سے قبل ماہرین کی ملاقات ہوئی، جس کے بعد ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے درمیان ملاقات ہو رہی ہے۔
یہ بات چیت روم میں ہونے والے دوسرے دور کے بعد ہو رہی ہے، جسے دونوں فریقین نے تعمیری قرار دیا تھا۔ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت کے آغاز سے ہی دنیا کے بڑے تنازعات اور بحرانوں پر سمجھوتے کرانے کی کوشش شروع کی ہے، جن میں یوکرین جنگ، غزہ کا مسلح تنازعہ اور ایران کے جوہری پروگرام کا مسئلہ سرفہرست ہیں۔
(جاری ہے)
ایرانی حکومت نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ اقتصادی پابندیوں کے اثرات کے باعث اور اسرائیل کے ہاتھوں خطے میں ایک سال سے جاری فوجی نقصانات کے بعد پابندیاں ختم کرانے کی خواہش رکھتی ہے۔
ایرانی سرکاری میڈیا نے ہفتے کو تصدیق کی کہ مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایرانی خبررساں ایجنسی ارنا (IRNA) کے مطابق، ''اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ کے درمیان تیسرا دور مسقط میں شروع ہو گیا ہے۔‘‘ تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
ایرانی مذاکراتی ٹیم سے قریبی ذرائع کے مطابق ہفتے کو فریقین کے ماہرین کی ملاقات ہوئی۔
مذاکرات کا آغاز ماہرین کی سطح پر ہو گا، جہاں ممکنہ جوہری معاہدے کے لیے ابتدائی فریم ورک تیار کیا جائے گا، جس کے بعد سربراہ مذاکرات کاروں کے درمیان بالواسطہ ملاقات ہو گی۔زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو ٹائم میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں کہا، ''میرا خیال ہے کہ ہم ایران کے ساتھ معاہدہ کر لیں گے۔
‘‘ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی برقرار ہے۔اگرچہ دونوں فریق سفارتی عمل کے حق میں ہیں لیکن دو دہائیوں سے جاری اس تنازعہ پر اب بھی دونوں کے مؤقف میں بڑا فرق بدستور برقرار ہے۔
ٹرمپ نے رواں سال فروری سے ایران پر ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی دوبارہ لاگو کی۔
انہوں نے سن 2018 میں اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے سن 2015 کے جوہری معاہدے کو ختم کر کے ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ایران کی ریڈ لائن کیا ہے؟
اقوام متحدہ کے جوہری امور کے نگراں ادارے کے مطابق سن 2019 سے ایران نے جوہری معاہدے کی خلاف ورزیاں شروع کر دی تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی 60 فیصد تک کی سطح پر لے جا چکا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسی ہفتے کہا کہ کسی بھی معاہدے کے تحت ایران کو یورینیم کی افزودگی مکمل طور پر بند کرنا ہو گی اور اپنے واحد جوہری بجلی گھر 'بوشہر‘ کے لیے افزودہ یورینیم درآمد کرنا ہو گی۔
ایرانی حکام کے مطابق تہران کچھ پابندیاں قبول کرنے پر تیار ہے، بشرطیکہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھائی جائیں۔
تاہم یورینیم کی افزودگی کا مکمل خاتمہ اور ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی حوالگی ‘ریڈ لائن‘ ہے، جن پرتہران سمجھوتہ نہیں کرے گا۔یورپ کی تجویز کیا ہے؟
یورپی ممالک نے امریکی مذاکرات کاروں کو تجویز دی ہے کہ کسی جامع معاہدے میں ایران کی بیلسٹک میزائل صلاحیت کو بھی محدود کیا جانا چاہیے تاکہ ایران جوہری ہتھیار میزائل کے ذریعے لے جانے کی صلاحیت حاصل نہ کر سکے۔
تاہم ایران کا مؤقف ہے کہ اس کے دفاعی اور میزائل پروگرام پر بات چیت نہیں ہو سکتی۔ ایرانی حکام کے مطابق میزائل پروگرام مذاکرات میں ایک بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔
گزشتہ سال ایران نے درجنوں بیلسٹک میزائل اسرائیل پر داغے تھے۔ اس سے قبل اسرائیل نے ایرانی کمانڈرز اور اس کے اتحادی ملیشیاؤں کے رہنماؤں کو ہلاک کیا تھا۔ یہ صورتحال غزہ جنگ کے دوران خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا نتیجہ تھی۔
ادارت: افسر اعوان