تاریخی عمارات اور سیاست

DW ڈی ڈبلیو اتوار 27 اپریل 2025 17:00

تاریخی عمارات اور سیاست

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 اپریل 2025ء) تاریخی عمارتیں اپنے عہد کی نمائندگی کرتیں ہیں۔ محلات، عبادت گاہیں، مقبرے، مینار اور ان کی یاد کو محفوظ رکھتے ہیں، جنہوں نے انہیں شاندار شکل میں چھوڑا تھا۔ لیکن بدلتی ہوئی سیاست اور اقتدار ان تاریخی عمارتوں کو کبھی مسمار کرتا ہے اور کبھی ان کا تحفظ کرتا ہے۔ ہر دور کے حکمران طبقات اپنے عہد کو یادگار بنانے کے لیے شاندار عمارات تعمیر کراتے لیکن جب ان کا دور بدلتا تو پھر یہ عمارتیں نئے آنے والے حاکموں کے رحم وکرم پر ہوتیں، جن میں سے بعض اپنے پیشروؤں کی جانب سے تعمیر کردہ ان عمارات کو مسمار کرا کے ان کی جگہ اپنی یادگاریں بنواتے۔

313 عیسوی میں جب قسطنطنیه عیسائی ہوا تو عیسائیت ریاست کا مذہب بن گئی، اور اس کے ماننے والوں نے منظم طریقے سے پیگن دور کے مندروں کو مسمار کیا۔

(جاری ہے)

ان کے دیوی دیوتاؤں کو پاش پاش کیا اور جگہ جگہ گرجا گھروں کی عمارتیں کھڑی کر کے اپنے مذہب کو برتر ثابت کیا۔ اسکندریا کے شہر میں خاص طور سے عیسائیوں کا رویہ بڑا جارحانہ تھا۔ انہوں نے نہ صرف وہاں مندروں کو زمین بوس کیا بلکہ ان میں رکھے دیوی دیوتاؤں کو کلہاڑوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔

انہوں نے پیگن لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ ان کے دیوی دیوتا ان کی مدد کو نہیں آئے۔ اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ عیسائیت کو قبول کر لیں۔ اُنہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ پیگن فلسفیوں کو بھی اتنا تنگ کیا کہ ان میں سے کچھ اسکندریہ چھوڑ کر چلے گئے اور کچھ خانہ نشین ہو کر خاموش ہو گئے۔ اس نئی تبدیلی کے نتیجے میں مندروں کی جگہ کلیساؤں کی عمارتوں نے لے لی اور پیگن فلسفیوں کی جگہ مذہبی انتہاپسندی آ گئی۔

تاریخی عمارتوں کے نام بدل کر انہیں ان کے کے فاتحین کے ناموں سے منسوب کر کے ان کا ماضی سے رشتہ توڑ دیا گیا اور اُن کی نئی شناخت پیدا کر دی گئی۔ مثلاً جب مسلمانوں نے دمشق کو فتح کیا تو اُس کے بڑے چرچ کو بدل کر مسجد میں تبدیل کر دیا۔ جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطینہ فتح کیا، تو آیا صوفیہ جو اپنی نوعیت کا شاندار چرچ تھا، اُسے مسجد میں بدل دیا۔

مصطفےٰ کمال پاشا نے اسے مسجد سے میوزیم میں تبدیل کیا۔ مگر موجودہ ترک حکومت نے اسے دوبارہ سے مسجد بنا دیا۔ 1492ء میں جب مسلمانوں کو اندلس سے نکالا گیا تو عیسائی حکومت نے مسجد قرطبہ کو گرجا میں بدل دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخی عمارتوں کو کس طرح سیاست کے ایک زریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

عمارتیں اس وقت بھی تعمیر کرائیں جاتی ہیں، جب حملہ آور کسی ملک پر قبضہ کر کے اپنا سیاسی تسلط قائم کرتے ہیں۔

جب انگریز ہندوستان میں آئے تو مُغل حکومت کا ذوال ہو چکا تھا۔ ان کی تعمیرکردہ عمارتیں خستہ اور شکستہ ہو کر کھنڈر بن رہیں تھیں۔ انگریزی حکومت نے ان عمارتوں کو محفوظ کرنے کی پالیسی نہیں بنائی۔ کیونکہ عمارتوں کے یہ کھنڈرات مغل عہد کے خاتمے کا اعلان کر رہے تھے۔ گورنر جنرل ولیم بینٹِک کے زمانے میں یہ فیصلہ ہوا کہ تاج محل کو مسمار کر کے اس کے سنگِ مرمر کو لندن کی مارکیٹ میں فروخت کیا جائے۔

تاج محل کو مسمار کرنے کے لیے وہاں مشینیں بھی پہنچ گئیں تھیں۔ مگر عین وقت پر یہ خبر آئی کہ لندن کی مارکیٹ میں سنگ مرمر سستا ہو گیا ہے۔ کیونکہ اسے بڑی تعداد میں یونان سے لندن لایا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ برطانوی حکومت مغلوں کی تاریخی عمارتوں کو کھنڈر ہی رکھنا چاہتی تھی تا کہ ہندوستان کے لوگوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ مغل دور ختم ہو چکا ہے اور انگریز ان کے نئے حکمراں ہیں۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب انگریز حکومت مستحکم ہوئی اور انہیں کسی قسم کا خطرہ نہیں رہا تو اُن کے رویے میں تبدیلی آئی اور وہ خود کو مغلوں کا وارث سمجھنے لگے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تاریخ کا تسلسل جاری رہا۔ لہٰذا مغلوں کے وارث ہونے کی وجہ سے اُن کی عمارتوں کی بھی دیکھ بھال شروع ہوئی۔ جب لارڈ کرزن گورنر جنرل بن کر آیا تو اُس نے خاص طور سے تاج محل کی طرف توجہ دی۔

اس وقت تاج محل کی حالت بڑی خراب تھی۔ اس کی دیواروں پر جو قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے اُنہیں لوگ نکال کر لے گئے تھے۔ مقبرے کا باغ جھاڑیوں وغیرہ سے بھر گیا تھا۔ اس کے درختوں کی کوئی دیکھ بھال نہیں تھی۔ لارڈ کرزن کی نگرانی میں مقبرے کی دیواروں پر قیمتی پتھروں کی جگہ مختلف رنگوں کے نگینے جڑوائے گئے۔ باغ کو جھاڑیوں سے صاف کر کے اس کی خوبصورتی کو بحال کیا گیا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ تاج محل اپنی اصل شکل میں ابھر کر سامنے آیا۔

تاریخی عمارتوں کے ساتھ ساتھ انگریز حکومت نے اپنے عہد کے استحکام کے اظہار کے لیے نئی عمارتیں تعمیر کرائیں۔ ان میں عدلیہ، انتظامیہ، واسرائے اور صوبوں کے گورنرز کے لیے تعمیر کی گئیں عمارتیں تھیں۔ عیسائی مبلغوں نے ہندوستان کے ہر شہر میں جگہ جگہ عمارتیں کھڑیں کر کے اپنے مذہب کی فوقیت کو ابھارا۔

انگریزوں کے جانے کے بعد بھی یہ عمارتیں ان کے عہد کی یاد دلاتی ہیں۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخی عمارتیں، سیاسی اور مذہبی نشیب و فراز کس طرح سے تاریخی رویوں اور رجحانات کو بدلتے ہیں۔ کبھی یہ تاریخی یادگاریں مضبوط اور مستحکم رہتی ہیں اور کبھی کھنڈرات میں بدل کر مورخوں کے لیے تحقیق کا موضوع بن کر معاشرے کے ذہن میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعا ضروری نہیں ہے۔