اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 اپریل 2025ء) پاکستان کی ایک نجی ٹیکنالوجی کمپنی ڈیٹا والٹ نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے گزشتہ ماہ پاکستان کا پہلا چیٹ بوٹ ''ذہانت اے آئی‘‘ پیش کیا۔ اسے پاکستان کی منفرد ثقافت اور ڈیجیٹل ماحول کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔ یہ چیٹ بوٹ کراچی میں واقع کمپنی کے ڈیٹا سینٹر سے آپریٹ ہوتا ہے۔
'ذہانت اے آئی‘ کی تیاری کیسے ممکن ہوئی؟
''ذہانت اے آئی‘‘ ڈیٹا والٹ کی جانب سے لانچ کیا گیا ہے، جس کی چیف ایگزیکٹو آفیسر مہوش سلمان علی ہیں۔ مہوش اس چیٹ بوٹ کی شریک بانی اور 'فوربس ٹیکنالوجی کونسل‘ کی رکن بھی ہیں۔ ڈی ڈبلیو (ڈوئچے ویلے) سے خصوصی گفتگو میں مہوش سلمان علی نے بتایا کہ ''ذہانت اے آئی‘‘ صرف ایک ٹیکنالوجی پراجیکٹ نہیں، بلکہ مصنوعی ذہانت کے عالمی میدان میں پاکستان کی نمائندگی کا ذریعہ ہے۔
(جاری ہے)
مہوش کے مطابق اس پراجیکٹ کی تکمیل میں 18 ماہ کا عرصہ اور بھاری سرمایہ کاری لگی۔ اس دوران ان کی قابل ٹیم نے مقامی ٹیلنٹ کے ساتھ مل کر وسیع تحقیق کی۔
'ذہانت اے آئی‘ عالمی چیٹ بوٹس سے کیسے مختلف ہے؟
مہوش سلمان نے بتایا کہ ''ذہانت اے آئی‘‘ میٹا لارج لینگویج ماڈل، چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک وغیرہ کے بنیادی اصولوں پر کام کرتا ہے، لیکن اس کا سورس کراچی کا ڈیٹا سینٹر ہے۔
اس سے پاکستانی زبانوں، ثقافت اور سیاق و سباق کو سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ ان کی ٹیم نے دیگر چیٹ بوٹس کی مکمل نقل نہیں کی بلکہ عالمی منظرنامے میں مصنوعی ذہانت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی صارفین کے لیے ایک منفرد تصور پیش کیا ہے۔ مہوش بتاتی ہیں، ''ذہانت اے آئی‘‘ کو عالمی چیٹ بوٹس سے مقابلے کے لیے نہیں بلکہ تعلیم اور تحقیق میں معاونت جیسے بنیادی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ عالمی اے آئی ماڈلز وسیع ڈیٹا پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن ''ذہانت اے آئی‘‘ مقامی زبانوں، ثقافت اور سماجی باریکیوں کو بہتر سمجھنے کی وجہ سے تیز تر اور صارفین کے لیے زیادہ متعلقہ ہے۔
صارف کی ذاتی معلومات کا تحفظ؟
فی الحال ''ذہانت اے آئی‘‘ کا بیٹا ورژن لانچ کیا گیا ہے۔ صارفین کو اس کے استعمال کے لیے ذاتی و پروفیشنل ای میل، پروفیشنل معلومات اور چیٹ بوٹ استعمال کی معقول وجہ بتانا ہو گی۔
رسائی کے لیے درخواست کا جائزہ لے کر ٹیم 10 دنوں میں اسے منظور یا مسترد کرے گی۔مہوش سلمان نے کہا کہ صارف کی ذاتی معلومات ٹریکنگ کے لیے نہیں مانگی جا رہی ہیں بلکہ اس سے صارفین اور ان کی ضروریات کو بہتر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ محدود رسائی سے تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں چیٹ بوٹ کے غیر قانونی استعمال کو روکنا بھی ممکن ہو گا۔
ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن: پاکستان تیزی سے بدلتے دس ممالک میں سے ایک، نئی رپورٹ
انہوں نے یقین دلایا کہ صارفین کا تمام ڈیٹا پاکستان میں محفوظ ہے اور اسے کبھی شیئر یا فروخت نہیں کیا جائے گا۔
مہوش کے مطابق صارفین کی ذاتی معلومات کا تحفظ ان کی ٹیم کی اولین ترجیح ہے، کیونکہ صارفین کا اعتماد ہی پراڈکٹ کی کامیابی کی ضمانت ہے۔تاہم ڈی ڈبلیو کے لیے تکنیکی لحاظ سے مندرجہ بالا دعوؤں کی تصدیق کرنا ناممکن ہے۔
سائنسی تحقیق میں غیر قانونی استعمال کی روک تھام
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سائنسی مقالوں کی تیاری کے لیے چیٹ بوٹس کا بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے گزشتہ چند برسوں میں ریسرچ پیپرز مسترد ہونے کی شرح، خصوصاً پاکستانی محققین کے لیے، بڑھ گئی ہے۔
اس سے طبی تحقیق بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔مہوش سلمان نے کہا کہ ''ذہانت اے آئی‘‘ کی ٹیم تعلیمی و تحقیقی میدان میں چیٹ بوٹس کے غلط استعمال سے آگاہ ہے اور اسے روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ چیٹ بوٹ کو 'بلٹ اِن سیف گارڈز‘ کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے، جو نقصان دہ، غیر اخلاقی، یا غیر قانونی پرامپٹس کو فوری طور پر بلاک کر دیتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ ماڈل تعلیم و تحقیق میں ہیر پھیر کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور صارفین کو ذمہ دارانہ استعمال کی طرف راغب کرتا ہے۔ مہوش نے مزید بتایا کہ پراجیکٹ کا بنیادی مقصد تعلیم ہے اور اس کے لیے ان کی ٹیم پاکستانی جامعات، اساتذہ اور محققین کے ساتھ مل کر مصنوعی ذہانت کے اخلاقی استعمال کی آگاہی پھیلا رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ''ذہانت اے آئی‘‘ صرف ایک ٹول نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے اور اس کے درست استعمال کے لیے تربیت ضروری ہے۔
مستقبل کی منصوبہ بندی
مہوش سلمان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ فی الحال متعارف کرایا گیا ماڈل ''زیڈ‘‘ یا ''زیڈ ون‘‘ ہے۔ جلد ہی ''زیڈ ٹو‘‘ ماڈل پیش کیا جائے گا، جو اردو کے علاوہ دیگر مقامی زبانوں میں بھی فعال ہو گا۔ اس میں وائس ان پٹ، تعلیم، طب اور قانون سمیت دیگر شعبوں سے متعلق خدمات شامل ہوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ ''ذہانت اے آئی‘‘ کی ٹیم ایپلیکیشن پروگرام انٹرفیس (اے پی آئی) پر بھی کام کر رہی ہے۔ یہ طویل المدتی منصوبہ پاکستان میں مصنوعی ذہانت کا ایک ایکو سسٹم تشکیل دے گا، جس کی جڑیں مقامی ہوں گی لیکن اسے عالمی سطح پر استعمال کیا جا سکے گا۔
ماہرین کی رائے
کراچی سے تعلق رکھنے والے آئی ٹی پروفیشنل علی قریشی، جو ایک بین الاقوامی فرم کے ساتھ کام کرتے ہیں، نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ''ذہانت اے آئی‘‘ کی لانچنگ ایک قابل ستائش اقدام ہے۔
اس پلیٹ فارم سے پاکستان کے مختلف شعبوں میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔علی قریشی کے مطابق، اس چیٹ بوٹ کے فیچرز پرکشش ہیں لیکن ابتدائی مرحلے میں اسے کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں قابل اعتماد ذرائع سے معلومات کا حصول، دُرستی اور فیکٹ چیکنگ سرفہرست ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو بدلتی دنیا سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے مسلسل اپ ڈیٹس ضروری ہیں۔ ان کے مطابق ''ذہانت اے آئی‘‘ کی کامیابی جدید ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور حکومتی و نجی شعبے کی حمایت پر منحصر ہے۔
ادارت: امتیاز احمد