Horse Racing - Article No. 2680

Horse Racing

گھڑ دوڑ - تحریر نمبر 2680

گھوڑوں کو ہم نے وہ مقام دیا ہے جو شاید کبھی گھوڑوں نے بھی ہمیں نہ دیا ہو

یونس بٹ ہفتہ 4 مئی 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
پچھلے دنوں ہارورڈ یونیورسٹی میں مختلف ممالک کے طالبہ کو گھوڑے پر آرٹیکل لکھنے کو کہا گیا تو ہر طالب علم نے اس کا الگ موضوع رکھا۔فرانسیسی طالب علم کا موضوع ”گھوڑوں کی جنسی زندگی؟“ انگریز کا ”گھوڑوں کا شکار“ کینیڈین طالب علم کا ”صحت مند گھوڑوں کی افزائش نسل کے جدید طریقے“ اور امریکی کا ”گھوڑوں میں گدھا پن“ تھا۔
بھارتی طالب علم نے اپنے مضمون کا عنوان ”گھوڑوں کو ”رام“ کرنے کے طریقے“ رکھا جبکہ پاکستانی طالب علم کا موضوع تھا ”گھوڑے اور تحریک عدم اعتماد۔“
صاحب! ہم اس طالب علم کو تو نہیں جانتے البتہ گھوڑے کو جانتے ہیں۔اگر وہ صرف ”تحریک عدم اعتماد“ لکھتے تو ہم سمجھتے‘ یہ کوئی ادبی تحریک ہے جو عدم صاحب پر اعتماد کرنے والوں پر مشتمل ہے۔

(جاری ہے)

ایک بار پنڈت ہری چند اختر کچھ لوگوں کے ساتھ بحث کر رہے تھے لیکن فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ مجھے عدم پر اعتماد ہے۔جو یہ فیصلہ کریں گے‘مان لوں گا۔ان کا خیال تھا عبدالحمید عدم صاحب ان کے حق میں فیصلہ دیں گے لیکن انہوں نے الٹ کر دیا تو دوسروں نے کہا”آپ نے عدم پر اعتماد کا اظہار کیا تھا‘اب آپ کو یہ ماننا پڑے گا۔“تو ہری چند اختر نے کہا”میں نے تو عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
“رابرٹ برٹن نے کہا ہے:”انگلینڈ عورتوں کے لئے جنت اور گھوڑوں کے لئے جہنم ہے۔“سو انگریز طالب علم نے مضمون کا عنوان ”گھوڑوں کا شکار“ رکھا تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن پاکستانی طالب علم کے مضمون سے تو لگتا ہے پاکستان میں گھوڑوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چل رہی ہے۔حالانکہ ہمیں تو اس جانور میں کوئی ایسی خامی نظر نہیں آتی کہ اس کے خلاف ایسی بد اعتمادی کی تحریک چلائی جائے۔
اگرچہ ہمارے ہاں یہ محاورہ ہے کہ گھوڑا اور عورت اس کی جس کے قبضے میں ہو۔اس میں بھی اتنا عدم اعتماد گھوڑے پر نہیں کیا گیا جتنا عورت پر کیا گیا ہے۔ان فلیمنگ نے کہا ہے”گھوڑا وہ شے ہے جو دونوں سروں سے خطرناک اور درمیان سے بے آرام ہوتا ہے“۔ویسے یہ واحد جانور ہے جو جوتے بھی پہنتا ہے‘ہر ماہ اس کے پاؤں میں نئے نعلین لگوانے پڑتے ہیں۔پھر گھوڑا ہر زبان میں ہنہنا سکتا ہے مگر پھر بھی بے زبان ہوتا ہے۔
چارلس دی ایمپیئرر نے کہا کہ میں خدا سے سپینی زبان‘عورتوں سے اطالوی‘مردوں سے فرانسیسی اور گھوڑوں سے جرمن زبان میں باتیں کرتا ہوں۔یہ باتیں انہوں نے ایک سیاستدان سے جرمن میں بات چیت کرتے ہوئے کہیں۔
ایک بار ایک انگریز نے پطرس مرحوم سے کہا”سنا ہے برصغیر میں گدھے بہت ہوتے ہیں۔“تو پطرس مرحوم نے کہا”صاحب! ہوتے تو بہت تھے مگر 1947ء میں بیشتر سے شفٹ ہو گئے۔

مغل بادشاہ بابر تو صرف اس بات پر عمر بھر فخر کرتا رہا کہ میرے آباؤ اجداد گھوڑے کی پیٹھ پر پیدا ہوئے۔پھر گھوڑا نہ ہو تو کوئی پنجابی فلم نہیں بن سکتی کیونکہ جب تک سلطان راہی کو گھوڑے پر نہ بٹھاؤ‘وہ ڈائیلاگ نہیں بول سکتا۔ہمارے جاگیردار وڈیرے تو گھوڑوں پر اس لئے بھی سجتے ہیں کہ ان پر بیٹھ کر وہ زمانہ قدیم کے انسان کی طرح چار ٹانگوں پر چل سکتے ہیں اور وہی کر سکتے ہیں جو چار ٹانگوں والے کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں صرف ایک خاتون اول ”ناہید خانم“ ایسی گزری ہیں جنہیں جانور اس قدر ناپسند تھے کہ اپنے خاوند صدر سکندر مرزا سے اکثر کھنچی کھنچی رہتیں۔یہاں تک کہ صدر صاحب نے ایک اے ڈی سی پر مشتمل کئی رکنی کمیٹی کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ سارا دن ایوان صدر سے کوے اڑایا کریں۔ان دنوں گھوڑوں کی ایوان اقتدار تک پہنچی نہیں تھی‘اب گھوڑوں کو ہم نے وہ مقام دیا ہے جو شاید کبھی گھوڑوں نے بھی ہمیں نہ دیا ہو۔
امریکہ کی حکومت بدلنے میں جو رول ”گدھے“ کا ہے‘ وہی ہمارے ہاں گھوڑے کا ہے۔سو جو بھی تحریک چلتی ہے‘وہ انہیں اعتماد میں لے کر چلتی ہے۔سو عدم اعتماد سے مراد ان پر عدم سے اعتماد ہو سکتا ہے۔یوں بھی ہماری تاریخ گھڑ دوڑ سے گزر رہی ہے۔اس سے پہلے کے زمانے کو ابن انشاء یوں لکھتے ہیں:
پتھر کا زمانہ
راہوں کا پتھر
جلسوں میں پتھر
سینوں میں پتھر
عقلوں پہ پتھر
پتھر ہی پتھر
دھات کا زمانہ
چمچے ہی چمچے
سکے ہی سکے
سونا ہی سونا
چاندی ہی چاندی
لوہا ہی لوہا
اور اب گھڑ ڈور
کو آپریٹو گھوڑے
نان کو آپریٹو گھوڑے
جیتنے والے گھوڑے
ہارنے والے گھوڑے
ہیروئن والے گھوڑے
گھوڑے ہی گھوڑے

Browse More Urdu Adab