Shanakht Parade - Article No. 2685

Shanakht Parade

شناخت پریڈ - تحریر نمبر 2685

آج کل جو بھی مریض آؤٹ ڈور یا ایمرجنسی وارڈ میں آتا ہے ڈاکٹر اس کے معائنے کے لئے جیب سے اسٹیتھو سکوپ بعد میں نکالتے ہیں پہلے تصویر نکال کر چیک کرتے ہیں

یونس بٹ منگل 4 جون 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
صاحب! آج کل ڈاکٹروں کے پاس جتنی تصویریں وزیرِ صحت جعفر اقبال صاحب کی ہیں شاید کسی فلمی اداکارہ کی نہ ہوں۔یہی نہیں آج کل جو بھی مریض آؤٹ ڈور یا ایمرجنسی وارڈ میں آتا ہے ڈاکٹر اس کے معائنے کے لئے جیب سے اسٹیتھو سکوپ بعد میں نکالتے ہیں پہلے تصویر نکال کر چیک کرتے ہیں اور پھر ساتھی ڈاکٹر کو تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں ”وزیرِ صحت نہیں اصلی مریض ہے۔
“ اب تو دوسرے ڈاکٹر کو بتانا ہو کہ مریض Functional ہے تو کہتے ہیں ” یہ وزیرِ صحت ہے۔“ گائنی وارڈ کے ڈاکٹر بھی احتیاطاً اپنے مریضوں کی تصویر سے ٹیلی کر لیتے ہیں۔بیرے تو کسی نئے آنے والے کو سلام کہیں اور وہ جواب نہ دے تو بھاگ کر ڈاکٹر کو جا کر اطلاع دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

”سر! تیار ہو جائیں جو بندہ آ رہا ہے‘ مجھے اس کے وزیر ہونے کا شک ہے۔“ ذہنی امراض کے وارڈوں میں تصویر بہت ضروری ہو گئی ہے کیونکہ یہاں تو داخل ہونے والے اکثر خود کو وزیر یا بادشاہ ظاہر کرتے ہیں۔

یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ کچھ دن قبل وزیرِ صحت مریض بن کر سروسز ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں گئے اور کہا ”میرے گلے میں کچھ پھنس گیا ہے۔“ قیاس ہے خبر پھنسی ہو گی۔ڈاکٹر ابتدائی معائنے کے بعد انہیں آپریشن تھیٹر میں شفٹ کرنے ہی لگے تھے کہ ایک صحافی نے پہچان لیا ورنہ ان کے ساتھ بھی وہی ہوتا جو مسز شیری کے ساتھ ہوا۔امریکہ کے این ای ٹی کے سپیشلسٹ سے دوسرے ڈاکٹر نے پوچھا:”ڈاکٹر صاحب آپ نے مسز شیری کا آپریشن کیوں کیا؟“
”ایک ہزار ڈالر۔

”ڈاکٹر صاحب آپ میرا سوال نہیں سمجھے‘ میرا مطلب ہے آپریشن کی علامات؟“
جواب ملا:”ایک ہزار ڈالر۔“
بہرحال اس دن تو وہ ڈاکٹروں کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر چلے گئے‘ اگرچہ پتا نہیں چلا کہ حسن سلوک میں حسن سے کتنا اور سلوک سے کتنا متاثر ہوئے‘ لیکن اس دن سے ڈاکٹروں کو ہر دوسرا شخص وزیرِ صحت نظر آنے لگا ہے۔
ہو سکتا ہے آپ کہیں جعفر اقبال صاحب آخر گلا دکھانے ہی کیوں گئے‘ آنکھیں دکھانے بھی جا سکتے تھے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انہیں دیکھا نہیں‘ وہ تو پورا منہ کھولیں تو ڈاکٹر کہتے”سر! میں باہر کھڑا ہو کر ہی معائنہ کروں گا۔“اگرچہ ڈاکٹر ایسے ہوتے ہیں کہ ایک پینٹر نے اپنی پینٹنگ اپنے ڈاکٹر دوست کو دکھاتے ہوئے کہا ”آپ کی اس پینٹنگ کے بارے میں کیا رائے ہے؟“ تو اس نے کہا ”میری رائے کے مطابق تو نمونیے کا مریض ہے۔“
اس لئے وزیرِ صحت بغیر کسی مرض کے بھی چلے آتے تو ڈاکٹر خود تلاش کر لیتے۔
ایک شخص لو میرج کے بعد بیوی کو آئی سپیشلسٹ کے پاس لے گیا کہ محترمہ کی نظر کمزور ہے۔ڈاکٹر نے سمارٹ شخص کے ساتھ نوبیاہتا بھدی بیوی دیکھی۔پھر ڈراپس لکھ کر دے دیئے۔اس شخص نے پوچھا ”بیگم یہ دوائی کب کب آنکھوں میں ڈالے؟“ تو ڈاکٹر نے کہا ”خاتون کی آنکھیں ٹھیک ہیں یہ دوائی آپ کے لئے ہے؟“ ایک ایسے ہی مریض کو ڈاکٹر نے بتایا کہ تمہیں کوئی بہت پرانی بیماری لگی ہے جس وجہ سے تمہاری صحت روز بروز گر رہی ہے۔
تو مریض نے کہا ”ڈاکٹر صاحب! آہستہ بولیں وہ ساتھ والے کمرے میں بیٹھی ہے۔“
لیکن اس واقعے سے تو لگتا ہے جعفر اقبال صاحب کو بچپن ہی سے اداکاری کا شوق ہے۔اداکار وہ ہوتا ہے جو ادا سے کار ہی نہ خرید لے بلکہ ہر کار ادا سے کرے۔ہر کامیاب سیاست دان دراصل کامیاب اداکار ہی ہوتا ہے۔بلکہ ان کا یہ شوق پورا کرنے کیلئے خصوصی ٹی وی پروگرام ”خبرنامہ“ ہوتا ہے تاکہ ان کو پرفارمنس کا موقع ملتا رہے لیکن اس میں مرکزی رول والے ہی چھائے ہوئے ہیں۔
جعفر اقبال صاحب تو سپورٹنگ ایکٹر ہیں‘ سو انہیں یہ شوق ایسے ہی پورا کرنا پڑا۔ویسے تو وزیر کا رول بھی بڑا مشکل ہوتا ہے‘ کسی نے ریگن سے پوچھا ”آپ نے کئی رول کئے‘ آپ کو سب سے مشکل کونسا لگا اور کیوں؟“ تو ریگن نے کہا ”امریکی صدر کا رول مجھے سب سے مشکل لگا‘ کیونکہ اس میں ایکٹر اور ڈائریکٹر میں خود ہی تھا۔ڈائیلاگ سیکرٹری لکھ دیتے تھے مگر ریہرسل کا وقت نہ ملتا تھا۔
“ لیکن ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ جعفر اقبال صاحب نے اداکاری ہی کرنا تھی تو اس کے لئے انہیں مریض کا رول ہی کیوں پسند آیا؟ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس رول کے لئے انہیں کسی گٹ اپ کی ضرورت نہیں تھی یا اس کی پہلے سے ریہرسل تھی۔جیسے ایک اداکار کو ڈرامہ سیریل میں جھوٹ بولنے والے شخص کا رول ملا تو کسی نے پوچھا ” یہ کردار کرتے ہوئے آپ کو اجنبیت تو محسوس نہیں ہو رہی؟“ تو اس نے کہا ”بالکل نہیں میں کئی سال پی ٹی وی پر خبریں پڑھتا رہا ہوں۔

ہماری اردو شاعری میں تو عاشق ہمیشہ اس لئے بیمار ہوتا ہے کہ مسیحا سے ملاقات کا بہانہ بنے۔جعفر اقبال صاحب روایتی آدمی ہیں انہیں پتا ہے ڈاکٹر دنیا کا واحد شخص ہے جسے تندرست آدمی اچھے نہیں لگتے۔سو انہوں نے مسیحاؤں سے ملاقات کے لئے اردو شاعری والا روایتی طریقہ استعمال کیا۔لیکن مسیحاؤں کو انہیں مریض کے روپ میں دیکھ کر بھی خوشی نہیں ہوئی بلکہ ہر مریض سے ڈرتے پھر رہے ہیں کہ کہیں وہ وزیرِ صحت نہ نکل آئے۔

Browse More Urdu Adab