مخصوص نشستوں کا کیس،جس سیاسی جماعت نے انتخابات لڑنے کی زحمت نہیں کی اسے مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟جسٹس جمال مندو خیل

آپ کے دلائل مفادات کا ٹکراو ہیں آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کریں یا پی ٹی آئی کی نمائندگی کریں، ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس

Faisal Alvi فیصل علوی پیر 24 جون 2024 12:24

مخصوص نشستوں کا کیس،جس سیاسی جماعت نے انتخابات لڑنے کی زحمت نہیں کی اسے مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟جسٹس جمال مندو خیل
اسلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔24جون 2024 ) سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ جس سیاسی جماعت نے انتخابات لڑنے کی زحمت نہیں کی اسے مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟سنی اتحاد کونسل کی پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ بینچ کیس کی براہ راست سماعت کر رہا ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارٹی الیکشن نہیں لڑتی بلکہ امیدوار الیکشن لڑتے ہیں۔ جس سیاسی جماعت نے انتخابات لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی اسے مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل کو مخاطب کرتے کہا کہ آپ کے دلائل مفادات کا ٹکراو ہیں۔

(جاری ہے)

یا آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کریں یا پی ٹی آئی کی نمائندگی کریں۔

ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے۔ ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا۔ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نظریاتی میں گئے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے۔ آپ صرف سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی باتیں نہ کریں۔ ملک میں ایسے عظیم ججز بھی گزرے ہیں جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔

صرف آئین پر رہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا۔ وکیل نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہ اس سوال کا جواب سلیمان اکرم راجہ دیں گے۔

جیف جسٹس نے کہا کہ رولز آئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ وکیل کاکہنا تھاکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا دس فیصد والی سیاسی جماعتوں کو ساری مخصوص نشستیں دے دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے۔ کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس ملک کی دھجیاں اسی لئے اڑائی گئیں کیونکہ آئین پر عمل نہیں ہوتا۔

میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے۔ پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو آئین میں دئیے گئے الفاظ غیر موثر ہو جائیں گے۔سنی اتحاد کونسل تو سیاسی جماعت ہی نہیں ہے۔سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مخصوص نشستیں انتخابات میں پرفارمنس پر انحصار نہیں کرتیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد سیاسی جماعت نہیں رہی۔ الیکشن کمیشن نے اِن لسٹڈ سیاسی جماعت تو قرار دیا ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی اب بھی سیاسی جماعت کا وجود رکھتی ہے تو دوسری جماعت میں کیوں شامل ہوئے؟ آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کر کے خودکشی کیوں کی جو آپ کے دلائل کے خلاف جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں