سابق صدرعارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو انتخابات نہ کراتے،چیف جسٹس

جس پارٹی سے انتخابات لڑنے ہیں اسی کی پارٹی سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکٹ لگانا ضروری ہے نا؟ سرٹیفیکٹ تحریک انصاف نظریاتی اور ڈیکلریشن پی ٹی آئی کا کریں تو قانون کیا کہتا؟،سماعت کے دوران قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس

Faisal Alvi فیصل علوی جمعرات 27 جون 2024 14:24

سابق صدرعارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو انتخابات نہ کراتے،چیف جسٹس
اسلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔27جون 2024 ) سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ اگرسابق صدر عارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو انتخابات نہ کراتے، صدر مملکت عارف علوی پی ٹی آئی کے ہو کر کیوں انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہے تھے؟،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں13رکنی فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ ایک شخص اگر شادی کرنا چاہے تو لڑکی کی بھی رضامندی ضروری ہے نا، جس پارٹی سے انتخابات لڑنے ہیں اسی کی پارٹی سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکٹ لگانا ضروری ہے نا؟ سرٹیفیکٹ تحریک انصاف نظریاتی اور ڈیکلریشن پی ٹی آئی کا کریں تو قانون کیا کہتا؟ مختلف شہروں کے ریٹرننگ افسران ہوتے، ہر ریٹرننگ افسر اپنے طریقے سے کام کرےگا نا؟ نشان چھوڑیں، ہمیں امیدوار کی سیاسی وابستگی کے بارے میں بتائیں۔

(جاری ہے)

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ امیدوار کی ڈیکلریشن اور پارٹی کے ساتھ وابستگی ظاہر ہونا ضروری ہے، اگر ڈیکلریشن، سیاسی وابستگی میچ نہ ہو تو آزاد امیدوار ہوتا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپ کسی کو انتخابات سے باہر کرسکتے ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ ریٹرننگ افسران کیلئے صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے آسان راستہ تھا کہ ایسے امیدواروں کو آزاد ظاہر کیا جائے۔

ا س پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا ایسا ہوا کہ امیدوار کہے میں ایک پارٹی کا ہوں، اسی کا سرٹیفیکٹ بھی دے لیکن الیکشن کمیشن نے اسے آزادامیدوار ظاہر کردیا ہو؟ وکیل نے کہا کہ ایسے امیدوار تھے لیکن انہوں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لی۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیا ان 81 امیدواروں میں کوئی ایک ہے جس نے جماعت سے وابستگی اور سرٹیفکٹ بھی دیا؟ کیا ایسے ہیں جنہوں نے وہ کاغذات واپس نہیں لئے مگر پھر بھی اسے آزاد ڈیکلئیر کردیا ہو؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ 81 لوگ ہیں تو ان کا مختلف مختلف حساب ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں یا نہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا جواب جو چارٹ آپ نے جمع کرایا اس میں موجود ہے، جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ چارٹ کے مطابق 81 میں سے 35 نے وابستگی کو خالی رکھا، کیا یہ ریکارڈ نہیں دکھاتا کہ پی ٹی آئی امیدواروں کا رویہ غیر سنجیدہ ہے؟جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ سیریل 12 اور 20 والے امیدواروں کے وابستگی اور ڈیکلیریشن دونوں پی ٹی آئی کے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ جب یہ دونوں چیزیں موجود تھیں تو امیدوار کو پی ٹی آئی کا کیوں نہ سمجھا گیا؟ الیکشن کمیشن نے اس کے بعد انتخابی نشان سے کنفیوز کیوں کیا؟ جن امیدواروں نے پارٹی کا سرٹیفکٹ بھی دیا انہیں اس جماعت کا تصور کیوں نہ کیا گیا؟ آپ اس معاملے میں انتخابی نشان کہاں سے لے آئے؟۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ نشان سے کنفیوڑ نہ کریں، ہم تحریک انصاف کے امیدوار کیوں نہ تصور کریں، سرٹیفیکیٹ میں تضاد نہیں، الیکشن کمیشن امیدوار کی حیثیت تبدیل کر رہا ہے، جس پارٹی کا سرٹیفیکیٹ لایا جا رہا اسی پارٹی کا امیدوار کو تصور کیوں نہیں کیا جا رہا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے جو سمجھ آرہا کہ امیدوار کے پاس اختیار نہیں کہ آخری تاریخ گزرنے کے بعد اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ کا جواب سمجھ نہیں آرہا لیکن اگے بڑھتے ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے امیدواروں کو آزاد کیوں کہا جب خود کو وہ ایک سیاسی جماعت سے وابستہ کہہ رہے تھے؟ کنفیوڑن شروع ہوگئی کہ پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملا تو امیدوار کیا کرسکتا ہے، پوچھا تو الیکشن کمیشن سے جائے گا نا کہ انہوں نے کیا کیا؟ آزاد امیدوار تو الیکشن کمیشن نے بنایا تھا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں