مخصوص سیاسی جماعت نے ٹرول گردی کا فن سیکھا ہے جس کے ذریعے اداروں اور سیاسی مخالفین کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے ،احسن اقبال

بدھ 19 جون 2024 21:10

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 جون2024ء) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ،ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت نے ٹرول گردی کا فن سیکھا ہے جس کے ذریعے اداروں اور سیاسی مخالفین کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے ،اس جماعت نے جہاں اداروںاور اپوزیشن کو رگڑا وہیں گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان اور چین کے تعلقات پر ٹرولنگ شروع کی ہوئی ہے اوریہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں کوئی کمی آ گئی ہے،میں ادب سے پی ٹی آئی کے دوستوں سے کہوں گا کہ اپنی سیاست اور ریاست کے مفادات میں فرق کرنا سیکھیں ،آپ ریاست کو اپنی سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتے ،آپ اگر ریاست کے مفادات کے ساتھ کھیلیں گے تو آپ کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا ،اگر آپ یہ چاہیں کہ اسمبلیوں سے ٹی اے ڈی اے بھی وصول کریں اور سڑکوں پر انتشار بھی پیدا کریں ملک کی ترقی کو سبوتاژکریں تو اس کی اجازت نہ قوم دے گی نہ ہم دیں گے نہ کوئی ملک کے اندر دے سکتا ہے ،بانی پی ٹی آئی اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جیل میں ہیں،یہ پہلی ایسی جماعت ہے جس کے پیش نظر اس کا مفاد اس کا لیڈر ہے جوپاکستان کی ریاست سے بڑا ہے ،اگر وہ ہے تو ریاست ہے اگر وہ نہیں ہے تو ریاست نہیں ہے ، پاکستان کی ریاست مضبوط ہے پاکستان کے چوبیس کروڑ عوام اس کی پشت کے اوپر ہیں ۔

(جاری ہے)

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور جب ہم سیاست کرتے ہیں تو ہمیں سیاست اور ریاست میں فرق سمجھنا چاہیے ، ہماری سیاست میں تو اتار چڑھائو ہو سکتا ہے لیکن ریاست کو ہمیشہ سیاسی مفاد سے بلند رہنا ہے ۔ ہم چاہے حکومت کے اندر ہوں یا حکومت سے باہر ہوں ریاست ہماری سانجھی ہے ، ریاست کے مفادات سانجھے ہیں ،ریاست کا مستقبل سانجھا ہے ،جب ہم سیاست کے لئے ریاست کو دائو پر لگاتے ہیں تو پھر ہم اپنے ملک کے ساتھ دوستی نہیں دشمنی کر رہے ہوتے ہیں ،اس وقت ایک مخصوص سیاسی جماعت نے ایک فن سیکھا ہے اور اس فن کو میں ٹرول گردی کہوں گا،اگر اپنے سیاسی مخالفین کو دبائو میں لانا ہے ان کے خلا ف ٹرولنگ شروع کر دی جائے ان کی پگڑیاں اچھالی جائیں گالم گلوچ اور ہراساں کیا جائے اور دبائو ڈالا جائے ،اسی طرح میڈیا کے اندر اگر کوئی ان کے ناجائز کام کی حمایت نہیں کرتے ان پر بھی ٹرولنگ کر کے ہراساں کیا جائے ،یہ طرز سیاست نہ جمہوری ہے نہ تعمیری اور نہ ہی با مقصد سیاست ہے جس سے اس جماعت کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم جیلوں میں بھی رہے جیلوں سے باہر بھی رہے اپوزیشن میں بھی رہے لیکن اپنی سیاست کا نشانہ پاکستان کی ریاست اورریاستی اداروں کو نہیں بنایا ۔ پاکستان کی ریاست اور ادارے وہ ستون ہیں جن کے ساتھ ہمارے سر پر ریاست کی چھت قائم ہے اگر ہم ریاست کے ستونوں کو کمزور اور کھوکھلا کریں گے تو پھر اس ریاست کے دفاع اور اس کی بقا کے لئے ہم باہر سے کوئی ضمانت نہیں لا سکتے ۔

اس جماعت نے جہاں فوج ،عدلیہ اور اپوزیشن کو رگڑا وہیں گزشتہ چار دنوں سے پاکستان اور چین کے تعلقات پر ٹرولنگ شروع کی ہوئی ہے اور کچھ ایسے مضامین جو کچھ مخصوص اداروں نے شائع کئے ہیں جن کا پاکستان اور چین کے متعلق اور خصوصاچین سے متعلق ایک مخصوص ایجنڈا ہے ،جن میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں کوئی کمی آ گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں شہباز شریف نے جو چین کا دورہ کیا اس دورے کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا یہ پاکستان کے سفارتی تعلقات کی تاریخ میں جامع ترین مشترکہ اعلامیہ تھا جس میں سی پیک سے لے کر ملک کی سلامتی سے لے کر ہماری دفاعی ضروریات سے لے کر پہلی دفعہ پاکستان اور چین کے تعاون کو سپیس کے شعبے میں بھی توسیع دی گئی ہے ۔ پاکستان اور چین کا روایتی رشتہ جو ہم کہا کرتے تھے کہ ہمالیہ کی چوٹیوں سے بلند ہے اب ستاروں اور آسمانوں سے بلند ہو چکا ہے کیونکہ ہم تعاون کو سپیس کے شعبے میں بھی لے جا چکے ہیں ،تیس مئی کو ایم ایم ون سیٹلائٹ کامیابی کے ساتھ چین کے اشتراک سے لانچ کیا گیا وہ پاکستان کے اپنے کمیونیکیشن کے نظام کیلئے سنگ میل تھا اور اس سے پاکستان کو بہت بریک تھرو ملے گا ،آئندہ ایک اور سپیس پروگرام کو چین کے اشتراک سے آگے بڑھائیں گے۔

اسی طرح چین نے سی پیک کے فیز ٹو کے لئے برملا کہا کہ پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد اب ہم اپ گریڈڈ ورژن سی پیک کے لئے تیار ہیں ،چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان کو پڑھنے اور سننے کے بعد کوئی احمق ہی ہوگا جو یہ سمجھے گا پاکستان ار چین کے تعلقات میں کسی طرح کی کمی آرہی ہے یا اس کا سٹیٹس کم تر ہوا ہے بلکہ پرائمری سکول کے بچے کو بھی پوچھیں گے تو وہ کہے گا کہ اس دورے کے بعد اس تعلق کے اندر مزید گہرائی پیدا ہوئی ہے اوراس تعلق کے اندر تعاون کی نئی بنیادیں تلاش کی گئی ہیں اور جو پاکستان اور چین کا ہمیشہ مستحکم رشتہ ہے وہ نئی بلندیوں کی طرف بڑھا ہے ،ہم سٹریٹجک کوارڈی نیشن کو مزید گہرا کرنا چاہتے ہیں ،دونوں نے عزم کیا کہ سی پیک نے پاکستان کی ترقی اورسوشو اکنامک ڈویلپمنٹ میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔

جب چین اور پاکستان کامشترکہ اعلامیہ اس بات کا اعلان کر رہا ہو کہ دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنے پر اتفاق کیا اور چین کی وزارت خارجہ نے اس کی تشریح چین کے صدر کے الفاظ کے ساتھ یوں کہ یہ تعلقات اب مزید گہرے ہوں گے اور پاکستان اور چین کا تعاون مزید نئے شعبوں میں جائے گا اس کے بعد کوئی یہ کہے کہ چین اور پاکستان کے تعلقات میںخدانخواستہ کمی ہو گئی ہے تو یہ پاکستان کے دشمن کا پراپیگنڈا تو ہو سکتاہے یہ کسی پاکستانی کی بات نہیں ہو سکتی ، میں انتہائی ادب سے پی ٹی آئی کے دوستوں سے کہوں گا کہ اپنی سیاست اور ریاست کے مفادات میں فرق کرنا سیکھیں ۔

آپ ریاست کو اپنی سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتے ،آپ اگر ریاست کے مفادات کے ساتھ کھیلیں گے تو آپ کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا کیونکہ جو ریاست کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے وہ ملک کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا ۔ ہمارے آپ کے ساتھ اختلافات ہو سکتے ہیں ہم مختلف رائے رکھ سکتے ہیں لیکن اس کا قطعایہ مقصد نہیں ہے پاکستان کے مفادات کے ساتھ کھیلیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم سی پیک کے اپ گریڈڈ ورژن کے طرف آگے بڑھ رہے ہیں اس مقصد کے لئے حال ہی میں وزیر اعظم نے چین سے صنعتی ،زراعت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کی بات چیت کی اس کی روشنی میں وزارت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ میں ایک نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن یونٹ بھی قائم کر دیا گیا ہے ،یہ دورہ اتنا کامیاب تھا اور چین نے پاکستان کو ترقی کے منصوبوں کے لئے اتنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا کہ ہم اس یونٹ کا قیام عمل میں لائے جوچین کے نیشنل ڈویلپمنٹ ریفارمز کمیشن کے ساتھ مل کر پاکستان میں وہ منصوبے اور اصلاحات جاری کرے جس سے ہم زراعت ،صنعت ،برآمدات ،ٹیکنالوجی میں اپنی پیداوار کو تیزی سے بڑھا سکیں ، اسی دور ے میں وزیر اعظم شہباز شریف کی درخواست پر چین کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہواوے نے سالانہ تین لاکھ پاکستانی نوجوانوں کو آئی ٹی میں تربیت دینے کا وعدہ کیا ہے ،چین کی جانب سے دس ہزار پاکستانی طلبہ اور سائنسدانوںکو زراعت میں تربیت دینے کا اعلان کیا گیا تاکہ ہم چین سے جدید ٹیکنالوجی کو زراعت کے شعبے میں لے کر آسکیں اور اپنی زرعی پیداوار کو کئی گنا بڑھائیں ۔

ا نہوںنے کہا کہ ہمار اایجنڈا پاکستان کی ترقی ہے ، پاکستان کے نوجوانوں کو وہ ہنر دینا ہے وہ تعلیم دینا ہے اور وہ علم دینا ہے جس سے وہ ڈیجیٹل انقلاب میں پاکستان کے مایہ ناز کارکن بن سکیں ،پاکستان کے پروفیشنل بن سکیں ۔ ہم نوجوانوں کی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور گالم گلوچ کی تربیت پر یقین نہیں رکھتے، یہ نوجوان پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں ان کو نفرت سے پاک کر کے ان کو ہم نے بہترین سکل دینے ہیں تاکہ اگلے چوبیس سالوں میں پاکستان جب اپنے قیام کے سو سال مکمل کرے گا تو یہ نوجوان پاکستان کی کامیابی پر فخر کر سکیں۔

ہمیں پاکستان کی سیاست اور اپنی ریاست میں فرق سیکھنا چاہیے ۔احسن اقبال نے کہا کہ حال ہی میں ورلڈ اکنامک فورم میں پوری دنیا کی سیاسی قیادت اور بزنس لیڈر شپ اکٹھی ہوئی ہے ، وہاں ایک سروے پیش کیا کہ دنیا کو سب سے بڑے درپیش دس خطرات کیا ہیں ۔اس میں نمبر ون ڈس انفارمیشن کو قرار دیا گیا کہ یہ اتنا بڑا ہتھیار بن چکا ہے جس سے آج سوسائٹی کے اندر عدم استحکام پیدا کیا جاتا ہے ، اس کے ذریعے پولرائزیشن پیدا کی جاتی ہے اگر اس کو بلینک چیک دیں گے فری فار آل کریں گے تو اس سے ملک میں کبھی بھی استحکام نہیں رہ سکتا ، آزادی اظہار رائے کا احترام کرنا ہم سب کا فرض ہے لیکن آزادی اظہار رائے کا قطعایہ مقصد نہیں ملک میں مستقل فتنہ فساد کا ہیجان پیدا کر کے پاکستان کی معاشی ترقی کو سبوتاژ کیا جائے ،پاکستان میں سرمایہ کاری کو سبوتاژکیا جائے،سرمایہ کاروں کو ہراساں اور خوفزادہ کیا جائے کہ پتہ نہیں کل کیا آگ لگ جانی ہے ۔

جس ملک نے بھی ترقی کی ہے وہاں امن ، استحکام ، پالیسیوں کا تسلسل اور اصلاحات کا ایجنڈا تھا اگر یہ چار چیزیں نہ ہوں تو آپ دنیا کے بہترین دماغ لا کر ساری دنیا کی دولت اکٹھی کر دیدیں وہاں کچھ نہیں ہو سکتا ۔ احسن اقبال نے کہا کہ سیاست ضرور کریں گے آپ نے ووٹ لئے ہیں آپ اسمبلیوں سے ٹی اے ڈی اے لے رہے ہیں لیکن آپ اسمبلیوں کے اندر سیاست کریں بات چیت کریں مکالمہ کریںاس کے ذریعے مسائل کو حل کریں ، اگر آپ یہ چاہیں کہ اسمبلیوں سے ٹی اے ڈی اے بھی وصول کریں اور سڑکوں پر انتشار بھی پیدا کریں ملک کی ترقی کو سبوتاژکریں تو اس کی اجازت نہ قوم دے گی نہ ہم دیں گے ۔

اگر بانی پی ٹی آئی آج جیل میں ہیں ہم نے تو انہیں جیل میں نہیں ڈالا بلکہ وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہیں ،انہیں کس نے مشورہ دیا تھا کہ تحائف بیچیں ، اس طرح کے معاملے میں برازیل کے سابق صدر کے خلاف گرفتاری نہیں ہوئی انہیں ان جرائم میں نہیں پکڑا گیا ،190ملین پائونڈ جو غریب عوام کا تھا جو اربوں روپے بنتا ہے کس نے مشورہ دیا تھا انہیں اپنے ایک ذاتی دوست کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دیں اور ریاست کے اکائونٹ میں نہ آنے دیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب نے بہت بدترین مارشل لائوں کا سامنا کیا ہے لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اگر پاکستان کو کوئی امداد مل رہی ہے تو اس کو روکا جائے ، ریاست کے جن ممالک سے کلیدی تعلقات ہیں ان کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ہو ۔ پوری دنیا میں کہا جارہا ہے کہ چین اور پاکستان کی دوستی بے مثال ہے ہم نے ہمیشہ اسے مستحکم رکھا ہے ، اس دوستی میں خزا ں نہیں بہار ہی بہار ہے لیکن جب آپ اپنی سیاست میں اس کو نشانہ بنائیں ،پاکستان کا وہ دوست ملک جو ہمیشہ ساتھ کھڑا جو سب سے زیادہ قابل اعتماد ہو یہ کہا جائے اس نے پاکستان کو چھوڑ دیا ہے تو آپ کس کی زبان بول رہے ہیں، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت گئی تو ہمارے وہ تمام کلیدی دوست ہم سے پیچھے ہٹ چکے ہوتے تھے۔

ہماری سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری آ چکی تھی، سی پیک منصوبے کو پنکچر کردیا گیا تھا اور عملاکام رک چکا تھا ، چینی سرمایہ کار پاکستان سے چلے گئے تھے ،پاکستان کا جو نقصان 2018سے2022کے درمیان ہوا ہم اس کو بھگت رہے ہیں 2018میں ایک اناڑی ایک ہینڈ سم لیڈر سے متاثر ہو کر جو ایک تجربہ کیا گیا اس نے ہمیں د س سال پیچھے پھینک دیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمیشہ اپوزیشن کی سیاست ہوئی ہے لیکن سیاست اور ریاست میں فرق رکھا گیا ہے یہ پہلی بار ایسی جماعت ہے جس کے پیش نظر اس کا مفاد اس کا لیڈر ہے جوپاکستان کی ریاست سے بڑا ہے ،اگر وہ ہے تو ریاست ہے اگر وہ نہیں ہے تو ریاست نہیں ہے ۔ یہ حماقت ہے یہ ان کا احمق پن ہے کہ کوئی ریاست کو نقصان پہنچاسکتا، پاکستان کی ریاست مضبوط ہے پاکستان کے چوبیس کروڑ عوام اس کے پشت پر ہیں لہذا اگر پی ٹی آئی نے اپنے مستقبل کو محفوظ کرنا ہے تو اس کو اپنا طرز عمل ٹھیک کرنا ہوگا۔

احسن اقبال نے کہا کہ پی ٹی آئی کا جو طرز عمل ہے اس وقت ریاست کوچلانے کے جو اصول ہیں ان سے متصادم ہو رہا ہے ، پی ٹی آئی والے ریاست کے اندر انارکی کو ہوا دے رہے ہیں ، افرا تفری کو ہوا دینا چاہتے ہیںان کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی ،ریاست چوبیس کروڑ عوام کی امانت ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈا پور سے میٹنگز میں جو ملاقات ہوئی اس میں انہوںنے بہت ذمہ دارنہ گفتگو کی لیکن عوام میں جا کر اس طرح کے بیانات اورجذبات کو ہوا دینا لیڈر شپ کا شیوہ نہیں ہے ، لیڈ رشپ کا کام رہنمائی کرنا ہوتا ہے ،علی امین گنڈاپورایک صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ،وہ یہ نہ کریں کہ ملک کے اندر انارکی کو ہوا دیں ،ان کا فرض ہے ملک میں استحکام کے لئے کام کریں ،اپنے صوبے کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی جماعت کے منشور پر عمل کریں ،آپ منفی سیاست کے ساتھ ملک کی خدمت نہیں کر سکتے، اپنی سیاست کو کسی مثبت بیانیے میں لے کر آئیں ۔

سب کے پاس اپنے اپنے صوبوں کامینڈیٹ ہے اگر ملک مضبوط ہوگا تو اس میں ہم سب کی بقا ہے اگر ملک کمزور ہوگا تو ایسا نہیں ہے کہ صرف مسلم لیگ (ن) کے لوگ مار کھائیں گے اورپی ٹی آئی کے لوگ بچ جائیں گے ، ملک مضبوط ہوگا ایسا نہیں ہے کہ صرف مسلم لیگ (ن) کو فائدہ اور پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ نہیں ملے گا ،اس کا فائدہ چوبیس کروڑ عوام اٹھائیں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاور سیکٹر کا بوجھ صرف چار ڈسکو ز آئیسکو، گیپکو،فیسکو اور کسی حد تک لیسکو نے اٹھایا ہوا ہے ، باقی ڈسکوز میں آدھی ریکوری ہے آدھی چوری ہے ، آج پاکستان کے پاس اتنے فاضل پیسے ہیں کہ ہم ان فیڈرز پر بھی بجلی دیں جہاں پر لوگ بل نہیں دے رہے ، خیبر پختوانخواہ کے جن فیڈرز پر ریکوری ہے وہاں بجلی جارہی اورجہاں پر بجلی چوری ہو رہی ہے بل ادا نہیں ہو رہا اس کا بل میں اور آپ ادا کریں گے وہ اب ممکن نہیں ۔

بجلی پہلے ہی اتنی مہنگی ہو گئی ہے ا ب ہم چوری کی بجلی دے کر اسے مہنگا نہیں کر سکتے ۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختوانخوا کی وزارت توانائی سے میٹنگ ہوئی تھی ، انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جہاں سے بجلی کے بل کی ریکوری نہیں ہے انہیں بہتر کریں یا خیر پختونخواہ ووفاق سے بلک میں بجلی خریدلے اور اس کے بعد اپنے لوگوں کو مفت بجلی دیں اور ان سے بل لیں یا نہ لیں ریکوری خود کریں ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم ایک ایسی پوزیشن پر ہیں جہاں ملک ایک معاشی بحران سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے ، ہمارے وسائل ایسے ہیں کہ اس سال وفاق کے مجموعی محاصل 7ہزار ارب تھے جبکہ قرضوں کی ادائیگی 8ہزار ارب روپے تھی ، قرضوں کو ادا کرنے کے لئے مزید ایک ہزار ارب ادھار لیا گیا ہے ، اس معاشی صورتحال میں ہم سبسڈی دے سکتے ہیں۔ یہ جلسے جلوس کرنے اور جذباتی ہیجان پیدا کرنے کا وقت نہیں ،ہم سب مل کر بیٹھیں مسائل کا حل تلاش کریں اور ذمہ داری ،تدبر اور فراست کا ثبوت دیں جو قوم ہم میں دیکھنا چاہتی ہے ۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں