چائے درآمد پر امتیازی ٹیکس کے نفاذ سے خزانے کو سالانہ 4.7ارب کا نقصان ہو رہا ہے ‘ پاکستان ٹی ایسوسی ایشن

ہر قسم کی چائے کی درآمد کے لیے یکساں ٹیکس سلیب کا نفاذ کیا جائے جو پاکستان کی معیشت کے وسیع تر مفاد میں ہے فاٹا ، پاٹا کی10لاکھ کلو گرام چائے کی کھپت ہے ،23ملین کلو گرام درآمد سے ٹیکس کی چھوٹ کے غلط استعمال کی نشاندہی ہوتی ہے

منگل 25 جون 2024 20:09

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 جون2024ء) پاکستان ٹی ایسوسی ایشن نے وفاقی بجٹ میں امتیازی ٹیکس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابقہ فاٹا ، پاٹا کوچائے کی درآمد میں ملنے والی مراعات برقرار ہیں جبکہ باقی ملک میں چائے کی درآمد پر مجموعی طور پر 53فیصد تک ٹیکسز اور ڈیوٹیز عائد ہیںجس سے قومی خزانے کو سالانہ 4.7ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے ۔

ایسوسی ایشن نے کہا کہ سابقہ فاٹا،پاٹا جس کی آبادی تقریباً6.5ملین ہے کیلئے سالانہ تقریباً 10لاکھ کلو گرام چائے کی کھپت ہے تاہم اس کے برعکس 23ملین کلو گرام کی درآمد کے اعدادوشمار حیران کن ہیں اور یہ تضاد ٹیکس کی چھوٹ کے غلط استعمال کی نشاندہی کرتا ہے جس سے حکومت کو بڑے پیمانے پر ریونیو کا نقصان ہوتا ہے۔قانونی ذرائع سے درآمد کی جانے والی چائے پر کل ٹیکس کی شرح 53فیصد ہے جس میں 6.5فیصد انکم ٹیکس بھی شامل ہے جبکہ اس کے برعکس سابقہ فاٹا،پاٹا میں چائے کی درآمد پر صرف 15سی19فیصد ٹیکس لگایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ٹیکس میں اس وسیع امتیازی سلوک کے نتیجے میں درآمد ہونے والی 23ملین کلوگرام چائے پر سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس ریونیو کا بڑا نقصان ہوتا ہے جس کی رقم تقریباً 70ملین ڈالر بنتی ہے جس سے پاکستان کی معیشت کو سالانہ 4.7ارب روپے کانقصان ہوگا۔اس امتیازی سلوک کا نتیجہ مارکیٹ میں بگاڑ اور غیر قانونی تجارت کی صورت میں نکلتا ہے کیونکہ ٹیکس میں چھوٹ نے اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کے لیے موزوں ماحول پیدا کیا ہے۔

مطالبہ ہے حکومت سابق فاٹا،پاٹا کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹ پر نظر ثانی کرے اور اس علاقے کے لئے چائے کی درآمد سے متعلق پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا جائے ۔پاکستان ٹی ایسوسی ایشن نے مزید مطالبہ کیا ہے ہر قسم کی چائے کی درآمد کے لیے یکساں ٹیکس سلیب کا نفاذ کیا جائے جو پاکستان کی معیشت کے وسیع تر مفاد میں ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں